امریکا کا اشرف غنی کے پاکستان سے متعلق دعوے کی تائید سے انکار

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2021
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس—فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے سابق افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوے کی تائید سے انکار کردیا کہ کابل پر طالبان کے حملے میں 10 سے 15 ہزار پاکستانی شامل تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے بجائے محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے افغانستان سے امریکی فوجیوں اور شہریوں کو نکالنے کی امریکی کوششوں میں ’اہم مدد‘ فراہم کرنے پر پاکستان اور دیگر شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے جب اشرف غنی کے دعوے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں ان رپورٹس کی تصدیق کے لیے ان پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹر کا انخلا میں مدد کرنے پر پاکستان سمیت دیگر سے اظہارِ تشکر

امریکی عہدیدار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کیا واشنگٹن اب بھی اشرف غنی کو افغانستان کا جائز حکمران سمجھتا ہے۔

جب نیڈ پرائس سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس دعوے پر تبصرہ کریں گے کہ کابل میں موجود طالبان فورسز میں غیر ملکی بھی شامل ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے پاس مزید معلومات ہوئیں تو فراہم کردیں گے‘۔

دوسری جانب انڈر سیکریٹری اسٹیٹ برائے پولیٹکل افیئرز وکٹوریا نولینڈ نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کو ان ایک درجن ممالک میں شامل کیا جنہوں نے امریکا کی انخلا کی کوششوں میں اہم مدد فراہم کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان ممالک کے بڑے نیٹ ورک کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہماری انخلا کی کوششوں میں اہم مدد فراہم کی۔

انخلا میں مدد کرنے والے ممالک میں جہاں انہوں نے پاکستان، کویت، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات کا نام لیا وہیں امریکا کے اہم یورپی اتحادی ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، برطانیہ اور دیگر ممالک کا بھی نام لیا جنہوں نے امریکیوں اور دیگر کو بحفاظت منتقل کرنے میں تعاون کیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا میں سہولت کاری پر یورپی کونسل کے سربراہ پاکستان کے شکر گزار

ان کا کہنا تھا کہ انخلا اور نقل مکانی دونوں پر ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہمارا قریبی تعاون اہم ہے لیکن ساتھ ہی ہم افغان عوام اور طالبان کے ساتھ اپنے جاری تعلقات کو گنجائش دینا شروع کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بدھ کے روز امریکی میڈیا نے صدر جو بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان 23 جولائی کو ہونے والی گفتگو کے اقتباسات شائع کیے تھے۔

اس ٹیلی فون کال میں جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کو بااختیار بنائیں تاکہ وہ اہم آبادیاتی مراکز میں طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کریں۔

جس کے جواب میں اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طالبان اور زیادہ تر پاکستانیوں سمیت کم از کم 10 سے 15 ہزار بین الاقوامی دہشت گردوں کے بڑے پیمانے پر حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سقوطِ کابل کیلئے پاکستان کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، اسد مجید خان

اس طرح کے دعوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے کہا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو غلط رنگ دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی قیادت مسلسل کہہ رہی ہے کہ ہمارا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں اور کابل میں کسی بھی ایسی حکومت کے ساتھ کام کریں گے جسے افغان عوام کی حمایت حاصل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان حکومت اور طالبان دونوں پر لچک دکھانے اور بامعنی رابطوں کے لیے زور دیتے رہے ہیں تاکہ ایک سیاسی تصفیہ اور جامع جنگ بندی ہوسکے۔

مزید پڑھیں: غلط اندازوں نے امریکا کا افغانستان سے بتدریج انخلا کا منصوبہ ناکام بنایا

ایک علیحدہ بریفنگ میں محکمہ خارجہ کے ایک اور عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں 20 سالہ فوجی مہم کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے والے افغانوں کی اکثریت کو وہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی حکام اس انتخاب سے، جو ہمیں کرنا پڑا اور ان لوگوں کی وجہ سے پریشان تھے، جنہیں انخلا کے پہلے مرحلے میں ہم نہیں نکال سکے۔

ایک بریفنگ میں نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ 17 سے 31 اگست کے درمیان 31 ہزار سے زائد افراد افغانستان سے امریکا پہنچے تھے جس میں سے 24 ہزار وہ تھے جو خطرات کی زد میں تھے اور بڑی تعداد ایس آئی ویز اور دیگر ویزوں کے حامل، ہجرت کے لیے تجویز کیے گئے اور دیگر افراد پر مشتمل تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں