چین میں ‘می ٹو’ مہم شروع کرنے والی خاتون کے جنسی ہراسانی کیس کا فیصلہ سنادیا گیا

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2021
ژاؤ شیاشوان نے  معروف میزبان  پر 2014 میں جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز
ژاؤ شیاشوان نے معروف میزبان پر 2014 میں جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز

چین کے دارالحکومت بیجنگ کی ایک عدالت نے ملک میں 'می ٹو' مہم شروع کرنے والی خاتون کی جانب سے دائر کیے گئے جنسی ہراسانی سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے دعووں کی تائید کے لیے ثبوت ناکافی ہیں۔

بیجنگ کی عدالت کی جانب سے اس قدمے کے خلاف فیصلے سے چین کی می ٹو مہم کو دھچکا لگنے کا امکان ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں 28 سالہ ژاؤ شیاشوان نے مختلف سوشل میڈیا پوسٹس میں ٹیلی ویژن کے ایک معروف میزبان ژو جون جو سرکاری چینل سی سی ٹی وی میں کام کرتے ہیں، پر 2014 میں جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ژاؤ شیاشوان نے الزام عائد کیا تھا کہ 2014 میں جب وہ ادارے میں بطور انٹرن کام کررہی تھیں اس وقت اینکر ژو جون نے انہیں جنسی ہراساں کیا تھا اور زبردستی بوسہ دیا تھا تاہم معروف میزبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کے الزامات تیزی سے وائرل ہوئے تھے اور انہوں نے 3 برس قبل ژو جون پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

اس کیس کی پہلی سماعت دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور گزشتہ روز اس کی دوسری سماعت بھی بند کمرہ عدالت میں ہوئی۔

ہیڈیان پیپلز کورٹ نے ایک فیصلے جس میں صرف ژاؤ اور ژو کو ان کی کنیتوں (surname) سے شناخت کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ پیش کردہ ثبوت جنسی ہراسانی کو ثابت کرنے کے لیے 'ناکافی' تھے۔

یہ واضح نہیں کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ژو جون عدالت میں موجود تھے یا نہیں اس سلسلے میں ان کے وکیل سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد حامیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو خاتون نے بتایا کہ تین سال تک اپنے کیس کو آگے بڑھانے کے بعد انہیں فیصلہ سن کر 'مایوسی' ہوئی۔

ان کے خیال میں انہیں اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کو بیان کرنے کا ایک بھی موقع نہیں دیا گیا۔

ژاؤ شیاشوان کے مطابق 'میں نہیں جانتی کہ مجھ میں مزید 3 برس تک اس پر قائم رہنے کی ہمت ہے یا نہیں'۔

بعدازاں انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی ٹیم فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم لازمی طور پر اپیل کریں گے کیونکہ اس میں تمام بنیادی حقوق کو نہیں دیکھا گیا'۔

چین کی می ٹو مہم 2018 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب بیجنگ میں ایک کالج کی طالبہ نے اپنے پروفیسر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا جو این جی اوز، میڈیا اور دیگر صنعتوں تک پھیل گیا تھا۔

تب می ٹو کے چرچے کو روک دیا گیا تھا لیکن چین میں حالیہ وسیع کوریج ، بغیر سنسرشپ کے ، جنسی زیادتی کے اسکینڈلز جن میں ٹیک جائنٹ علی بابا اور مشہور شخصیت کرس وو شامل ہیں ، نے اس موضوع پر بحث کو دوبارہ شروع کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں