چیئرمین نیب کی تعیناتی کیلئے حکومت کا شہباز شریف سے مشاورت سے گریز

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2021
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم کس طرح نیب کے ملزم سے مشاورت کرسکتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم کس طرح نیب کے ملزم سے مشاورت کرسکتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اگرچہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی ناقابل توسیع 4 سالہ مدت آئندہ ماہ ختم ہوجائے گی تاہم وزیر اعظم عمران خان انسداد بدعنوانی کے ادارے کے نئے سربراہ کے تقرر پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت کے خواہش مند نہیں کیوں کہ شہباز شریف نیب کی جانب سے دائر کردہ کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈان کو بتایا کہ چونکہ نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں دائر کردہ متعدد کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں اس لیے حکومت نے نیب چیئرمین کے تقرر کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ' اس معاملے پر وزیر اعظم کس طرح نیب کے ملزم سے مشاورت کرسکتے ہیں ؟'

ان کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے حکومت دیگر قانونی اختیارات پر غور کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کے تقرر کے خلاف درخواست کی سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل

جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت میں توسیع دینے یا اُنہیں دوبارہ تعینات کرنے سے متعلق حکومتی غور و غوض کے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'میں اس سے انکار کروں گا نہ ہی اس کی تصدیق کروں گا'۔

گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اراکین کے تقرر کے لیے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھا تھا جس کا جمعہ کو جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے ای سی پی کے خالی عہدوں کے لیے 6 نام تجویز کیے ہیں۔

نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کو قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنی پڑتی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق صدر، قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ناقابل توسیع 4 سالہ مدت کے لیے صدر کی متعن کردہ شرائط پر چیئرمین نیب مقرر کریں گے جنہیں سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے طریقہ کار کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کی تقرری: خورشید شاہ اور ڈار کا رابطہ

قومی ادارہ برائے قانونی ترقی و شفافیت کے صدر احمد بلال محبوب نے بتایا کہ اگر حکومت چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کرتی تو یہ 'غیر قانونی' عمل ہوگا۔

حکومتی مؤقف کے مطابق قائد حزب اختلاف نیب کے ملزم ہیں، سے متعلق سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ 'نیب کا ملزم ہونا یا ان پر الزام ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جب تک اپوزیشن لیڈر مجرم نہ ثابت ہوجائیں وزیر اعظم ان سے قانون کے مطابق معاملات پر مشاورت کر سکتے ہیں '۔

انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف نیب آرڈیننس نے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دیا تھا۔

بات جاری رکھتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنا کوئی انتخاب نہیں بلکہ یہ قانونی پابندی ہے'۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع یا دوبارہ تقرر سے متعلق آرڈیننس لانے یا ایسا کوئی قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:حکومت، نیب کے اختیارات کم کرنے کے لیے متحرک

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو منی لانڈرنگ، آمدن سے زائد اثاثہ جات، آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی اور رمضان شوگر ملز سے متعلق نیب کیسز کا سامنا ہے، وہ مذکورہ ریفرنسز میں ضمانت پر ہیں جبکہ ان مقدمات میں ایک سال کی جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔

پی ایم ایل این، شہباز شریف اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف نیب کی کارروائی کو 'نیب نیازی گٹھ جوڑ' اور 'سیاسی انتقام' قرار دیتی ہے۔

اس ہی طرح دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر قیادت نیب سے ناخوش ہے اور کہتی ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر کام کررہا ہے۔

موجودہ چیئرمین نیب کا ایک ویڈیو اسکینڈل بھی سامنے آچکا ہے جس پر اپوزیشن نے آزاد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، وزیر اعظم کے ایک مشیر کے ٹیلیویژن چینل نے چیئرمین نیب کی متنازع ویڈیو چلائی تھی لیکن حکومت نے مشیر کو برطرف کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں