قطر اور یورپی یونین کو افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مایوسی

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2021
طالبان نے گزشتہ ہفتے ہرات میں 4 مبینہ اغوا کاروں کو کرینوں سے پھانسی دی  تھی، رپورٹ - فوٹو:اے ایف پی
طالبان نے گزشتہ ہفتے ہرات میں 4 مبینہ اغوا کاروں کو کرینوں سے پھانسی دی تھی، رپورٹ - فوٹو:اے ایف پی

قطر اور یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کاروں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو 'مایوس کن‘ قرار دیا جبکہ دوحہ نے طالبان کو اسلامی نظام چلانے کے لیے قطر کی جانب دیکھنے کی تجویز دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے گزشتہ ہفتے ہرات میں 4 مبینہ اغوا کاروں کو کرینوں سے پھانسی دی جبکہ بڑی جماعتوں کی لڑکیاں نئے تعلیمی سال سے اپنی پڑھائی کا دوبارہ آغاز کرنے سے قاصر ہیں۔

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے دوحہ میں میڈیا بریفنگ میں کہا کہ 'افغانستان میں دیکھے گئے حالیہ اقدامات میں سے چند کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی'۔

گزشتہ مہینے امریکی افواج کے انخلا، ہزاروں غیر ملکیوں اور افغانوں کو نکالنے میں مدد، نئے طالبان حکمرانوں کے ساتھ مشغول ہونے اور کابل ایئرپورٹ پر کارروائیوں کی حمایت کے بعد قطر، افغانستان میں ایک اہم کردار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: پھانسی، ہاتھ کاٹنے کی سزائیں بحال کی جائیں گی، طالبان رہنما

شیخ محمد عبدالرحمٰن نے کہا کہ 'ہمیں ان کے ساتھ مشغول رہنے کی ضرورت ہے اور ان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں نہ کریں اور ہم طالبان کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے قوانین کیسے چلا سکتے ہیں اور وہ خواتین کے مسائل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک مثال قطر کی ریاست ہے جو ایک مسلم ملک ہے، ہمارا نظام ایک اسلامی نظام ہے (تاہم) ہمارے ہاں خواتین حکومت میں اور اعلیٰ تعلیم میں مردوں سے زیادہ ہیں'۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے دوحہ میں ملاقاتوں کے دوران قطری اعلیٰ سفارتکار کی بات کی تائید کی اور کہا کہ 'افغانستان میں حال ہی میں ہونے والی چند چیزیں کافی مایوس کن ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ افغان، حکومت کو نئے سرے سے سنبھال سکیں گے۔

گزشتہ ماہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اغوا کے ملزمان کو سر عام پھانسی دیا گیا تھا جو سب سے بڑی عوامی سزا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو ایک موقع دینا چاہیے شاید وہ بدل گئے ہوں، سربراہ برطانوی فوج

اسے ایک علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ اسلام پسند طالبان خوفناک اقدامات کریں گے جیسا کہ انہوں نے 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور حکومت میں کیا تھا۔

تقریباً دو ہفتے ہو چکے ہیں کہ سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے روک دیا گیا ہے، حالیہ دنوں میں افغانستان بھر میں خواتین کی طرف سے الگ الگ احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔

شیخ محمد عبدالرحمٰن نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ 'گزشتہ سالوں میں حاصل کردہ فوائد کو برقرار رکھیں اور محفوظ کریں' لیکن انہوں نے عالمی برادری کو بھی خبردار کیا کہ وہ افغانستان کو تنہا نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ 'مسلم ممالک کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ طالبان کے لیے اچھی مثال بنیں تاکہ خواتین کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی یا شرعی قانون کا غلط استعمال نہ ہو'۔

تبصرے (0) بند ہیں