امریکا، برطانیہ کی شہریوں کو کابل کے ہوٹلوں سے دور رہنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2021
امریکی شہری جو سرینا ہوٹل کے قریب ہیں، انہیں فوری طور پر وہاں سے چلے جانا چاہیے، امریکی محکمہ خارجہ - فائل فوٹو:رائٹرز
امریکی شہری جو سرینا ہوٹل کے قریب ہیں، انہیں فوری طور پر وہاں سے چلے جانا چاہیے، امریکی محکمہ خارجہ - فائل فوٹو:رائٹرز

امریکا اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان میں ہوٹلوں کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان کی جانب سے یہ ہدایت ایسے وقت میں سامنے آئی جہاں چند روز قبل ہی ایک مسجد میں حملے کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

طالبان، جنہوں نے اگست میں اقتدار سنبھالا تھا اور اسلامی امارت کا اعلان کیا تھا، ایک انسانی آفت سے بچنے اور افغانستان کے معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی شناخت اور مدد کے خواہاں ہیں۔

تاہم جہاں طالبان ایک باغی فوج سے اقتدار میں آئے ہیں، انہیں داعش کے افغانستان چیپٹر سے خطرے پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان

امریکی محکمہ خارجہ نے علاقے میں ’سیکیورٹی خطرات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکی شہری جو سرینا ہوٹل کے قریب ہیں، انہیں فوری طور پر وہاں سے چلے جانا چاہیے‘۔

برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس نے کہا کہ ’بڑھتے ہوئے خطرات کی روشنی میں آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ہوٹلوں میں نہ رہیں، خاص طور پر کابل میں (جیسے سرینا ہوٹل)‘۔

طالبان کے قبضے کے بعد سے بہت سے غیر ملکی افغانستان چھوڑ چکے ہیں لیکن چند صحافی اور امدادی ورکرز کابل میں موجود ہیں۔

معروف پرتعیش سرینا ہوٹل جو کاروباری مسافروں اور غیر ملکی مہمانوں میں مقبول ہے، دو مرتبہ طالبان کے حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔

2014 میں صدارتی انتخابات سے چند ہفتوں قبل چار نوعمر افراد جن کے موزوں میں بندوق چھپی ہوئی تھی، سیکیورٹی کو عبور کرتے ہوئے ہوٹل میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس میں اے ایف پی کے ایک صحافی اور اس کے خاندان کے افراد سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

2008 میں ایک خودکش دھماکے میں 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی امداد پر تبادلہ خیال

اگست میں غیر ملکی شہریوں اور خطرات کا سامنا کرنے والے افغانوں کی افراتفری میں انخلا کے دوران نیٹو ممالک نے ایک ممکنہ خطرے کے بارے میں انتباہ جاری کیا تھا جس میں لوگوں کو کہا گیا کہ وہ کابل ایئرپورٹ سے دور رہیں۔

گھنٹوں بعد ایک خودکش بمبار نے ایئرپورٹ کے ایک دروازے کے ارد گرد جمع ہونے والے ہجوم میں دھماکا کیا جس میں سیکڑوں شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جس نے طالبان کے کئی محافظوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔

جمعے کے روز قندوز شہر میں جمعے کی نماز کے دوران ایک مسجد میں بم دھماکا دیکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ اختتام پذیر، طالبان کا جشن

خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں داعش کا افغانستان اور پاکستان چیپٹر ان ممالک میں چند مہلک حملوں کا ذمہ دار رہا ہے۔

ان حملوں میں مساجد، مزارات، عوامی مقامات اور یہاں تک کہ ہسپتالوں میں شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔

گزشتہ ہفتے کے آخر میں امریکا کے انخلا کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سینئر طالبان اور امریکی وفود نے پہلی مرتبہ آمنے سامنے مذاکرات کیے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق مذاکرات ’امریکی شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور ہمارے افغان شراکت داروں کے لیے سلامتی اور دہشت گردی کے خدشات اور محفوظ راستے پر مرکوز تھے‘۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی بامقصد شرکت سمیت انسانی حقوق کے امور بھی اٹھائے گئے‘۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق مباحثے ’واضح اور پیشہ ورانہ‘ تھے اور امریکی حکام نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’طالبان کے بارے میں ان کی باتوں سے نہیں بلکہ ان کے عملی اقدامات پر فیصلہ کیا جائے گا‘۔

طالبان نے کہا کہ امریکا، افغانستان کو امداد بھیجنے پر راضی ہو گیا ہے جبکہ امریکا نے کہا کہ اس مسئلے پر صرف بات چیت ہوئی ہے اور کوئی بھی امداد افغان عوام کو جائے گی نہ کہ طالبان حکومت کو۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’امریکی نمائندوں نے کہا کہ وہ افغانوں کو انسانی امداد فراہم کریں گے اور دیگر انسانی تنظیموں کو امداد پہنچانے کے لیے سہولیات فراہم کریں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں