سپریم کورٹ: حکومت پنجاب کو بلدیاتی ادارے فعال کرنے کیلئے 20 اکتوبر تک کی مہلت

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021
چیف جسٹس نے میئر لاہور اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب پر سخت برہمی کا اظہار کیا—تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے میئر لاہور اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب پر سخت برہمی کا اظہار کیا—تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کو کھولنے اور فعال کرنے کے لیے 20 اکتوبر تک مہلت ‏دے دی۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ‎عدالت ایڈووکیٹ جنرل سے ایسا کرنے کی تحریری یقین دہانی مانگے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کوئی تحریری یقین دہانی درکار نہیں ہے، ہمیں ہمارا کام کرنا آتا ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے عدالتی فیصلے کے باوجود بلدیاتی ادارے غیر فعال رکھنے پر توہین عدالت کی درخواست پر ‏سماعت‎ ‎چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے دو رکنی بینچ نے کی۔

عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ کو ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی کا حکم دیا تھا۔ ‎

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم کب دیا تھا؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نوازش پیرزادہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 25 مارچ 2021 کو بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دسمبر تک بلدیاتی حکومتوں کی معیاد ختم ہو جائے گی، ‎منتخب بلدیاتی نمائندوں نے اب تک کیا کام کیا ہے؟ لاہور کے مئیر صاحب کہاں ہیں؟

جس پر مئیر لاہور مبشر جاوید عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم نے عدالت کے حکم کے مطابق سڑک پر بیٹھ کر اجلاس کیے، بلدیاتی نمائندوں کے اجلاس اور کام کو میڈیا میں دیکھایا گیا ہے لیکن ہماری سہولت کاری کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے کچھ نہیں کیا جا رہا۔‎ ‎

چیف جسٹس نے میئر لاہور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے لوگ خود ہی کام کرنا نہیں چاہتے، دنیا میں جا کر دیکھیں بلدیاتی ادارے کس طرح سے کام کرتے ہیں، آپ کو کام کرنا ہوتا تو سڑکوں پر بھی بیٹھ کر لیتے۔

مزید پڑھیں: عدالتی حکم کے باوجود پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا امکان معدوم

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک بھر کے بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ کے حکم سے بحال کیے گئے تھے، جب ذمہ داریوں کا معلوم ہی نہیں تو آپ سب گھر بیٹھ جائیں، آپ ان کے نام بتائیں جنہوں نے دفاتر کو تالے لگائے، بلدیاتی نمائندے چاہتے ہیں ان کو پیسے اور عملہ دیں تو وہ کام کریں، بلدیاتی نمائندوں میں کام کرنے کا جذبہ ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نور الامین پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس قسم کا سیکریٹری لوکل گورنمنٹ رکھا ہوا ہے، جواب کہاں ہے؟

جس پر سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نور الامین نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری صاحب آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کے خلاف کرِمنل کیس چل رہا ہے، ہم آپ کو یہاں سے جیل بھیج دیں گے، کیا آپ یہاں تفریح کرنے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

‎چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے استفسار کیا کہ ‎عدالتی فیصلے پر تاحال عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی اداروں کی بحالی سے متعلق بہت کام ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے کام نہیں چلے گا، ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔

‎بعدازاں ‎سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری پنجاب کامران افضل کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ سابق چیف سیکریٹری پنجاب جاوید رفیق کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

عدالت نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب کو توہین عدالت کی درخواست پر وکیل کرنے اور حکومت پنجاب کو بلدیاتی ادارے فعال کرنے کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: حکومتِ پنجاب نے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرکے رائے دہندگان کے حقوق ضبط کیے، سپریم کورٹ

خیال رہے کہ حکومت پنجاب نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ (پی ایل جی اے) 2019 کے سیکشن 3 کے تحت بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا تھا جبکہ الیکشن، پی ایل جی اے 2013 کے تحت 2015 اور 2016 میں مرحلہ وار ہوئے تھے، منتخب بلدیاتی اداروں کی مدت پانچ سال ہے۔

تاہم صوبائی حکومت نے ’پانچ سال‘ کی جگہ ’21 ماہ‘ کے الفاظ شامل کرکے پی ایل جی اے کے سیکشن 3 (2) میں ترمیم کے بعد گزشتہ برس 2 جولائی کو بلدیاتی اداروں کی مدت اچانک ختم کردی تھی۔

درخواست گزاروں نے پی ایل جی اے 2019 کی دفعہ 3 کے تحت اس تحلیل کو چیلنج کیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب ممبران اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے اہل ہیں، جو اس سال 31 دسمبر کو ختم ہونی ہے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ کو ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ بلدیاتی ادارے اپنی مدت پوری کیے بغیر تحلیل نہیں کیے جاسکتے اور اداروں کو تحلیل کرنا آئین کی شقوں کے خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں