ڈینگی کیسز میں اضافہ، حکومت اعداد و شمار مرتب کرنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2021
سال 2019 میں ملک میں ڈینگی کے 50 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
سال 2019 میں ملک میں ڈینگی کے 50 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ایسے میں کہ جب پاکستان خسرہ روبیلا کے خلاف دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی مہم کی تیاری کر رہا ہے اب تک ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈینگی کیسز اور اس سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحت عامہ اور طب کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب میں ڈینگی کے تشویشناک مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے جہاں حال ہی میں 500 سے زائد افراد کا ڈینگی ٹیسٹ مثبت آیا اور صرف ایک ہی دن میں 18 مریض انتقال کرگئے۔

ڈینگی کے پھیلاؤ نے سال 2019 میں نیا ریکارڈ قائم کیا تھا جب مچھر سے پیدا ہونے والی بیماری کے تقریباً 50 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے اور کم از کم 79 مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ایکسپو سینٹر میں ڈینگی کے مریضوں کیلئے فیلڈ ہسپتال قائم

ایک دہائی سے زائد عرصے تک قومی سطح پر نئے کیسز اور متعلقہ اموات کے اعداد و شمار کو مرتب کرنے اور عوامی آگاہی کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اعداد و شمار میڈیا کو جاری کرنے کے لیے ایک مناسب انتظام موجود تھا۔

تاہم حکومت کی تمام تر توجہ کووڈ 19 پر ہونے کی وجہ سے رواں برس ایسا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

وزارت قومی صحت کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر رانا صفدر، ڈینگی کا ڈیٹا مرتب اور اسے صوبوں، تمام اسٹیک ہولڈرز اور میڈیا کو فراہم کرتے تھے۔

تاہم اس سال ڈاکٹر رانا صفدر کووڈ کے معاملات دیکھ رہے ہیں اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت اور قومی ادارہ صحت میں کوئی ایک فرد اس قابل نہیں کہ اعداد و شمار مرتب اور اپ ڈیٹ کر سکے بلکہ اسلام آباد کے اعداد و شمار بھی ضلعی صحت افسر ڈاکٹر ضعیم ضیا مرتب کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں رواں سیزن کے سب سے زیادہ ڈینگی کیسز رپورٹ

قومی ادارہ صحت کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وزارت صحت سے قومی سطح پر اعداد و شمار مرتب کرنے کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس قابل لوگ ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات وزارت صحت کو کرنے چاہیے لیکن بدقسمتی سے وزارت نے اس معاملے کو ترجیح نہیں دی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت کا دعویٰ ہے کہ وہ کووڈ 19 کے اعداد و شمار کے ساتھ مؤثر اور پیشہ ورانہ طور پر نمٹ رہی ہے لیکن ہمیں شک ہے کہ کیا وزارت، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے تعاون کے بغیر بھی اس ڈیٹا کو سنبھالنے کے قابل ہے۔

پاکستان نے 1994 سے لے کر اب تک متعدد مرتبہ ڈینگی کے پھیلاؤ کا تجربہ کیا ہے اور 2005، 2011 اور 2019 میں بڑے پھیلاؤ رپورٹ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: جڑواں شہروں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ

سال 2005 کے دوران کراچی میں ڈینگی کے تقریباً 6 ہزار کیسز جبکہ 52 اموات ہوئیں، سال 2011 کے دوران لاہور میں 350 اموات کے ساتھ 21 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے اور 2019 میں تقریباً 50 ہزار کیسز اور 79 اموات رپورٹ ہوئیں۔

وزارت قومی صحت کے ترجمان ساجد شاہ سے جب پوچھا گیا کہ قومی سطح پر کون ڈینگی کے اعداد و شمار سے نمٹ رہا ہے تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

دوسری جانب پاکستان، بین الاقوامی خسرہ روبیلا مہم کے لیے تیاری کر رہا ہے۔

وزارت صحت کے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے ایک اہم قومی بین الادارہ جاتی کوآرڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) کے اجلاس کی صدارت کی جو عالمی ادارہ صحت، گاوی، یونیسیف اور عالمی صحت کے دیگر معروف اداروں کے اراکین پر مشتمل ایک اعلی سطح کے ’شراکت دار مشن‘ کے تناظر میں قائم کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ملک میں مختلف وبائیں پھوٹ پڑیں، طبی ماہرین کا کثیر تعداد میں ادویات کے استعمال پر انتباہ

گزشتہ ہفتے عالمی روبیلا خسرہ مشن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران وفاقی و صوبائی سطح پر امیونائزیشن (ای پی آئی)، پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹرز، یونیسیف، ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔

دورے کا بنیادی ایجنڈا خسرہ روبیلا مہم کی تیاری اور پاکستان میں عمل درآمد میں عالمی حکمت عملی کو شامل کرنا تھا۔

اس کے علاوہ مشن نے مناسب انسانی وسائل، خاص طور پر خواتین ویکسینیٹرز، رکاوٹوں سے آگاہی اور خاص طور پر ایم آر مہم اور کووڈ 19 ویکسی نیشن، اسکولوں اور مدارس اور اسکول سے باہر بچوں کے لیے کی جانے والی ویکسی نیشن پر تبادلہ خیال کیا اور اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے سفارشات بھی تجویز کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں