نورجہاں کو حد سے زیادہ میک اپ کے ساتھ گاتا دیکھ کر ’چڑ‘ ہوتی تھی، علی عظمت

21 اکتوبر 2021
نورجہاں کو حد سے زیادہ میک اپ کے ساتھ گاتے دیکھ کر چڑ ہوتی تھی، علی عظمت
نورجہاں کو حد سے زیادہ میک اپ کے ساتھ گاتے دیکھ کر چڑ ہوتی تھی، علی عظمت

ماضی کے مقبول گلوکار علی عظمت نے کہا ہے کہ 1990 کی دہائی میں جب وہ نوجوان تھے تب میڈم نورجہاں ٹی وی پر بہت زیادہ میک اپ اور ساڑھی کے ساتھ گانے گاتی تھیں تو لوگوں کو ان سے ’چڑ‘ آتھی اور اس سے بچنے کے لیے ملک میں مغربی میوزک کو پروان چڑھایا گیا۔

’دی کرنٹ‘ ویب سائٹ کے یوٹیوب پروگرام میں وکلا کے ساتھ ملک میں مغربی طرز موسیقی اور سماجی اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے علی عظمت نے بتایا کہ کس طرح پاکستان میں امریکی پاپ کلچرل میوزک کو متعارف کروایا گیا۔

انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 1992 یا 1993 کا واقعہ ہے جب وہ بلوچستان کے شہر سبی گئے تو وہاں انہوں نے مٹی کے طوفان میں بھی رات دیر گئے ہوٹل پر لوگوں کو ٹی وی پر امریکی ٹی وی ’ایم ٹی وی‘ کی ویڈیوز دیکھتے ہوئے دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی زمانے میں ایم ٹی وی کی کیسٹس کو ملک میں لانے سے قبل ٹی وی پر میڈم نورجہاں جب گانے گاتی تھیں تو اس وقت کی نوجوان نسل کو ان سے ’چڑ‘ آتی تھی۔

علی عظمت کے مطابق نورجہاں اس وقت بھی زائد العمر تھیں اور وہ گلوکاری کے وقت ساڑھی میں ملبوس بہت بڑے زیورات اور حد سے زیادہ میک اپ کے ساتھ گانے گاتی تھیں.

انہوں نے بتایا کہ اس وقت نئی نسل سوچتی تھی کہ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم صرف نورجہاں کو ہی ٹی وی پر دیکھیں اور سنیں اور اس کے بعد ملک میں ’ایم ٹی وی‘ میوزک کلچر کی ویڈیو کیسٹس لاکر چلائی جانے لگیں اور ملک میں مغربی موسیقی کو رائج کیا گیا۔

علی عظمت نے اعتراف کیا کہ مغربی میوزک کلچر نافذ ہونے کے بعد جب وہ میڈونا سمیت دیگر مغربی گلوکاراؤں کو ٹی وی پر مختصر لباس میں دیکھتے تھے تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے تھے۔

اسی پروگرام میں انہوں نے خواتین اور مرد حضرات کی الگ الگ اور سماجی حدود پر بھی بات کی اور کہا کہ مرد و خواتین کی تفریق صدیوں سے چلی آ رہی ہے، بہت سارے کام ایسے ہی جو مرد تو کر سکتے ہیں مگر خواتین نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے مثال دی کہ جیسے ان کی والدہ کو انہوں نے ایک ہزار بار ڈرائیونگ سکھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ سیکھ پائیں۔

علی عظمت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جوانی میں گلوکاری کرنے کے دوران انہیں بھی درجنوں لڑکیوں نے ہراساں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: علی عظمت کا نیا بولی وڈ گانا

انہوں نے کسی مخصوص واقعے کا ذکر نہیں کیا البتہ بتایاکہ جب وہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں میوزک کنسرٹ کرنے جاتے تھے تو وہاں پانچ پانچ ہزار لڑکیاں ہوتی تھیں جو انہیں ہراساں کرتی تھیں۔

انہوں نے خود کو ہراساں کیے جانےکے واقعے کا ٹک ٹاکر عائشہ اکرام کو مینار پاکستان کے قریب 14 اگست 2021 کو درجنوں افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے واقعے سے موازنہ کیا۔

علی عظمت نے بتایا کہ اس وقت جب انہیں بہت ساری لڑکیوں نے ہراساں کیا تو وہ پہلے تو خوش ہوتے تھے کہ اتنی ساری لڑکیوں نے مل کر انہیں ہراساں کیا، پھر وہ یہ سوچتے کہ کیا انہیں مذکورہ واقعے پر افسردہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہراساں کرنے والے افراد کا کوئی مذہب، کوئی قومیت نہیں ہوتی، یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، انہیں کوئی پاکستانی، بھارتی یا امریکی نہیں کہ سکتا۔

مذکورہ پروگرام میں موجود دوسرے وکیل مہمان نے بھی پاکستان میں مغربی طرز کی موسیقی کے نظام کو رائج کرنے پر بات کرتے ہوئے اسے پاکستانی سماج کے برعکس قرار دیا۔

علی عظمت کی جانب سے مغربی موسیقی کو پاکستانی معاشرے میں رائج کرنے اور ان کی جانب سے میڈم نورجہاں کے حوالے سے نامناسب گفتگو کیے جانے پر سوشل میڈیا پر ان پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں