ایم این اے اکرم چیمہ کے ساتھ معاملہ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مؤقف سامنے آگیا

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2021
معاملے کی حقیقت کو ظاہر کرنے اور جواب دینے کے لیے مجبور ہوں، جسٹس عیسیٰ — فائل فوٹو: ڈان نیوز:قومی اسمبلی ویب سائٹ
معاملے کی حقیقت کو ظاہر کرنے اور جواب دینے کے لیے مجبور ہوں، جسٹس عیسیٰ — فائل فوٹو: ڈان نیوز:قومی اسمبلی ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں عدالت تک تھوڑا پیدل چلنا بھی اب آزمائش بن گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اپنے اور حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی محمد اکرم چیمہ کے درمیان پیش آنے والے واقعے کے بارے میں منظر عام پر آنے والے ایک خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بدھ کے روز سیکڑوں پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تھے لیکن دارالحکومت کے ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر قومی اسمبلی کے سامنے پارک مشتبہ جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی کو کسی نے نہیں دیکھا۔

جج کے دو صفحات پر مشتمل خط میں کسی کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ وہ اس معاملے کی حقیقت کو ظاہر کرنے اور جواب دینے کے لیے مجبور ہیں ورنہ ان کی خاموشی کورنگی، کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی کے لمبے چوڑے افسانوں کو ثابت کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے دوبارہ حکومتی نظرثانی کی درخواست کی نقل مانگ لی

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اکرم چیمہ اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے، جن کے بارے میں جج نے کہا کہ واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے، خط میں اس بات کی تردید کی گئی کہ انہوں نے گاڑی میں موجود افراد کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ ایک ’جعلی نمبر پلیٹ‘ والی مشتبہ گاڑی کو ضبط کیا جاسکتا ہے جس کے لیے کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس ادا نہیں کیے گئے تھے، ساتھ ہی کہا گیا کہ ’دھمکی، بدسلوکی، جھوٹ اور پریس کانفرنسز سچ ثابت نہیں کرتیں‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خدشہ ظاہر کیا کہ بعض حلقے ’سچ کے متبادل‘ کے طور پر ان پر حملہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدسلوکی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے ایک فیصلہ لکھا جو بعض حلقوں کے لیے درست نہیں تھا۔

انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ ’میرے اور میرے خاندان کے خلاف استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈے، میری جان کو لاحق خطرات اور ہم پر کی جانے والی بدسلوکی مجھے قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے سے دور نہیں کرسکتی‘۔

خط میں انہوں نے کہا کہ یہ میرا فرض ہے، ہر شہری اور ٹیکس دہندگان کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس قانون کو برقرار رکھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کورونا وائرس کا شکار

خط میں وضاحت کی گئی کہ دو افراد، جن سے جج نے پہلے کبھی ملاقات نہیں کی تھی اور نہ ہی انہیں پہچانا تھا، قومی اسمبلی کے سامنے شاہراہ دستور پر کھڑی گاڑی میں موجود تھے۔

خط میں کہا گیا کہ ’گاڑی میں ایک بڑا اینٹینا لگا تھا جس کی میرے مطابق اجازت صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کی گاڑیوں کو ہی ہوتی ہے جبکہ اسمبلی کے سامنے شاہراہ دستور پر پارکنگ کی اجازت بھی نہیں ہے۔

خط میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کے سامنے ہمیشہ کی طرح متعدد پولیس اہلکار موجود تھے لیکن ان میں سے کسی نے بھی گاڑی کے ڈرائیور کو گاڑی ہٹانے کی ہدایت نہیں کی اور نہ ہی گاڑی کی رجسٹریشن اور ڈرائیور کا لائسنس بک چیک کیا۔

بعد ازاں جج نے گاڑی میں موجود افراد سے کہا کہ وہ اپنی شناخت بتائیں لیکن انہوں نے ان سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں جس پر جج نے خود کو جج کے طور پر شناخت کیے بغیر بتایا کہ وہ ایک شہری اور ٹیکس دہندہ ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’میں نے کالی ٹائی یا کالا کوٹ نہیں پہنا تھا بلکہ میں نے نیلی جیکٹ پہن رکھی تھی‘۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں فیصلے کے خلاف درخواستیں، رجسٹرار نے اعتراض لگا کر واپس کردیں

ان کا خیال تھا کہ مشکوک افراد اور ان کی گاڑی کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہو سکتی ہے کیونکہ اس پر جعلی نمبر پلیٹیں تھیں چنانچہ انہوں نے اپنے موبائل فون سے گاڑی اور اس میں سوار افراد کی تصویر کھینچی اور اس کے بعد وہ سپریم کورٹ چلے گئے جہاں انہیں کارروائی کرنے کے لیے وقت پر پہنچنا تھا۔

خط میں بتایا گیا کہ لیکن جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی قومی اسمبلی کی عمارت میں داخل ہوئی اور پھر باہر نکل آئی، ایک شخص گاڑی سے اترا، ان کی طرف بڑھا اور گندی گالیاں دیں۔

خط میں کہا گیا کہ ’میں نے انہیں نظر انداز کیا، خاموش رہا اور سپریم کورٹ کی طرف چلتا رہا‘۔

دریں اثنا ایم این اے اکرم چیمہ نے اس واقعے پر قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجرز اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 97 کے تحت قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کرائی ہے جس میں معاملے کی جانچ اور تحقیقات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کے حوالے کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں