جسٹس عیسیٰ کیس میں فیصلے کے خلاف درخواستیں، رجسٹرار نے اعتراض لگا کر واپس کردیں

اپ ڈیٹ 26 مئ 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کے خلاف جمع کروائی گئی نئی نظر ثانی کی درخواستوں کو اعتراض لگا کر واپس کردیا۔

خیال رہے کہ یہ نظرثانی درخواستیں صدر، وزیراعظم، وزیر قانون نے جمع کروائی تھیں جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور شہزاد اکبر نے بھی علیحدہ سے نظر ثانی کی درخواستیں عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی تھیں۔

ذرائع کے مطابق صدر نے ازخود نوٹس دائرہ اختیار کے تحت آئینی درخواست دائر کی تھی، 70 صفحات پر مشتمل درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسی کو فریق بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نظر ثانی درخواست پر فیصلہ آنے کے بعد بھی ازخود نوٹس دائرہ اختیار پر سماعت کی جاسکتی ہے۔

تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراض لگایا کہ ایک کیس میں دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی اور حکومتی کی درخواستوں کو واپس کردیا۔

بعد ازاں ترجمان وزارت قانون نے ایک جاری بیان میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس پر دیئے جانے والے اکثریتی فیصلے کے خلاف حکومت کی جانب سے 26 اپریل کو نظر ثانی درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں جس پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

ترجمان نے بیان میں مزید کہا کہ مذکورہ اعتراضات کو دور کرکے قانون کے مطابق یہ درخواستیں جلد دوبارہ جمع کروائی جائیں گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں اور وہ 18 ستمبر 2023 کو ممکنہ طور پر چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور اس کے بعد 13 ماہ تک اس عہدے پر فرائض سر انجام دیں گے۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 26 اپریل کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس پر حکم کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں 6، 4 کے تناسب سے منظور کی تھیں۔

اکثریتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کی جائیدادوں سے متعلق ایف بی آر سمیت تمام فورمز کی قانونی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی عدالتی فورم پر چیلنج نہیں ہوسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: 'تاریخی فیصلہ': جسٹس قاضی فائز کیس کے فیصلے پر وکلا، ماہرین کا ردعمل

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ‘غلطی’ اور ‘ایرر’ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ‘مختلف نقائص’ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزاروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی نظرثانی کیس، 'حکومت کا کیس کالعدم ہوچکا تو حکومتی وکیل کو سننا کیوں ضروری ہے؟'

5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے اور مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے نظر ثانی کیس کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں