شعبہ توانائی، کارکردگی کی حوصلہ شکنی اور کاروبار کو متاثر کرتا ہے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2021
رپورٹ میں سرکاری بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی اور پالیسی اصلاحات کو ناقص پایا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ میں سرکاری بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی اور پالیسی اصلاحات کو ناقص پایا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: اضافی پیداواری صلاحیت کے باوجود بجلی کے نئے کنیکشنز کی 12 لاکھ درخواستیں زیر التوا ہیں جبکہ ملک میں لوڈشیڈنگ بھی موجود ہے جہاں بجلی کا موجودہ فریم ورک کارکردگی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے وہیں کاروبار بھی معمول سے غیر مستحکم ہو چکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خلاصہ ایک نجی تھنک ٹینک ’پرائم انسٹی ٹیوٹ‘ نے ’بجلی کی تقسیم کار سرکاری کمپنیاں (ڈسکوز)، 5 سالہ کارکردگی‘ کے جائزے میں بیان کیا۔

رپورٹ میں بجلی کی سرکاری کمپنیوں کی کارکردگی اور پالیسی اصلاحات کو ناقص پایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایک سے زائد بجلی کے سپلائر کا نظام آئندہ سال سامنے آنے کا امکان

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’موجودہ فریم ورک کارکردگی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ کاروبار بھی معمول کے مطابق جاری نہیں رہ سکتا‘ اور اضافی پیداوار کے باوجود لوڈشیڈنگ بدستور موجود ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کمزور ہے کیوں کہ یہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نقصانات، بلز کی ریکوری، سرمایہ کاری اور عوامی تحفظ سے متعلق ریگولیٹری اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2016 سے 2020 تک کے عرصے میں ناقص کارکردگی کے باعث قومی خزانے کو مجموعی طور پر 13 کھرب 55 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

اس میں 2016 اور 2020 کے درمیان گردشی قرضوں کی مد میں ڈسکوز کو 6 کھرب 47 ارب روپے کا مالی نقصان اور 7 کھرب 8 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی شامل ہے جو وفاقی بجٹ سے ادا کی گئی۔

مزید پڑھیں: ڈسکوز کی نگرانی کیلئے پیپکو کی بحالی کا منصوبہ

جائزے میں ناکامیوں کی بنیادی وجہ اسٹرکچر اصلاحات میں تاخیر اور حکومت کی طرف سے مسلسل بیل آؤٹس کو قرار دیا گیا جو بہتری کی خواہش ختم کر دیتے ہیں۔

سال 2016 سے 2020 تک بل کی رقوم کی عدم وصولی کے سبب ڈسکوز کو 4 کھرب 52 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ ترسیل اور تقسیم کے پرانے انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے ہونے والا نقصان ایک کھرب 95 ارب روپے رہا۔

ٹی اینڈ ڈی نقصانات کی وجوہات میں کچھ ڈسکوز کی جانب سے مناسب سرمایہ کاری کا فقدان جبکہ کچھ کی جانب سے مقررہ حد سے زیادہ سرمایہ کاری ہونا شامل ہے۔

تقسیم کار کمپنیوں کو ریگولیٹری اہداف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی پایا گیا جس کے لیے معمولی جرمانے بھی کیے گئے لیکن اب بھی انحراف جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تابش گوہر کا مکتوب اور بجلی کے شعبے کی حالتِ زار

اس لیے حکومت کو ہر سال تقسیم کار کمپنیوں کو بیل آؤٹ دینا پڑتا ہے تاکہ وہ ان کا کام جاری رہے جس کی لاگت 7 کھرب 8 ارب 40 کروڑ روپے ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اضافی پیداوار کی گنجائش کے باوجود ملک میں لوڈشیڈنگ موجود ہے جبکہ کچھ علاقوں میں صارفین کو یومیہ 2 گھنٹوں سے زائد کی بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ 5 برسوں میں صارفین نے نئے کنیکشنز کے لیے 75 لاکھ سے زائد درخواستیں دیں لیکن 16 فیصد درخواستیں اب بھی زیر التوا ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں