سپلائرز کی عدم تعمیل کے باعث حکومت توانائی کی قلت دور کرنے کیلئے کوشاں

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2021
وزیر توانائی حماد اظہر نے متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے اجلاس کیے—فائل فوٹو: رائٹرز
وزیر توانائی حماد اظہر نے متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے اجلاس کیے—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: ایسی صورتحال میں جب مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے 67 فیصد بڑھ کر 217 روپے فی کلو تک پہنچ گئیں، حکومت توانائی کی قلت کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے کیوں کہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) سپلائی کرنے والوں کی جانب سے پرعزم کارگو کی فراہمی کی عدم تعمیل کے دورانِ موسم سرما میں شروع ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر توانائی حماد اظہر نے توانائی سپلائی چین، پاور، پیٹرولیم ڈویژن اور وزارت خزانہ میں متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے اجلاس کیے۔

ان اجلاسوں کا مقصد سپلائی کی کمی سے نمٹنے کے لیے گیس کو جنوبی سے شمالی خطے کی جانب موڑنا، گیس کی محدود دستیابی کے ساتھ فراہم کیے جانے والے شعبوں کی ترجیحات اور متبادل درآمدی ایندھن کو یقینی بنانے کے لیے مالیاتی انتظامات کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کا کھیل: محض نااہلی یا بدعنوانی؟

یہ اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ دو ایل این جی سپلائرز، گنوور اور ای این آئی نے نومبر میں ایک ایک کارگو فراہم کرنے کے لیے اپنی معاہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیا تھا جس سے حکام حیران رہ گئے تھے کیوں انہیں پہلے ہی گیس کی قلت کا سامنا تھا۔

ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے کہا کہ ’ہم اس خلل کو کم کرنے کے لیے متعدد سطحوں پر کام کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت توانائی نے سفارتی چینلز کو بھی فعال کیا ہے اور ایل این جی سپلائرز کی جانب سے وعدے کی پاسداری کروانے کی کوشش میں ان سے بھی رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ دو کارگوز میں سے ایک کو بچا لیا جائے گا جبکہ دوسرا تکنیکی وجوہات کی بنا پر ممکن نہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں: پاکستان بلیک آؤٹ سے بچنے کے لیے مہنگے داموں ایل این جی خریدنے پر مجبور

اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ اٹلی کی ای این آئی اپنا ڈیفالٹ حل کرے گی اور یہاں تک کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر شیڈول میں کچھ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ وعدہ کی گئی مقدار فراہم کرے گی جبکہ گنوور خالصتاً اس چیز کی تاجر ہے اور اس بات کا امکان نہیں کہ وہ دانستہ طور پر ڈیفالٹ سے بچے۔

گنور اور ای این آئی کے ساتھ مدتی معاہدوں اور عالمی منڈی کی موجودہ قیمتوں کے درمیان قیمت کا فرق بہت زیادہ ہے جو بظاہر سپلائرز کے عدم تعمیل کی وجہ ہے۔

یہ فرق 10 سے 12 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم بی ٹی یو) سے 30 سے 35 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ایس او کا 'مہنگا ترین' ایل این جی کارگو خریدنے سے انکار، اوگرا نے نوٹیفکیشن واپس لے لیا

دوسری جانب معاہدے میں عدم تعمیل کا جرمانہ تقریباً 3 ڈالر فی یونٹ (معاہدے کی قیمت کا 30 فیصد) ہے۔

ای ین آئی کا پی ایل ایل کے ساتھ 11.95 فیصد برینٹ پر 15 سالہ کا معاہدہ ہے جبکہ گنوور کا 11.63 فیصد برینٹ پر 5 سالہ معاہدہ ہے۔

اجلاس میں متعلقہ وزارتوں، بجلی، پیٹرولیم اور خزانہ اور سپلائی چین کے اداروں جیسے پی ایس او، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ، ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کے علاوہ ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کمپنیوں اور پاور اداروں کو یہ جانچنے کے لیے بلایا گیا کہ کیا گیس سپلائی کے ذرائع کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور متبادل ایندھن سے فرق کیسے پورا کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں اس بات کو ترجیح دی گئی کہ زیادہ سے زیادہ دستیاب مقامی گیس اور درآمد کردہ ایل این جی برآمدی شعبے کی صنعتوں، پاور سیکٹر اور فرٹیلائزر یونٹس کو فراہم کی جائے گی۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ فرنس آئل کا موجودہ اسٹاک تقریباً ساڑھے 3 لاکھ ٹن ہے جو 15 سے 20 دنوں کے لیے پاور سیکٹر کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے جبکہ پی ایس او نے پہلے ہی مزید ایک لاکھ 60 سے ایک لاکھ 70 ہزار ٹن اضافی فرنس آئل کے لیے ٹینڈرز جاری کردیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں