ٹی ایل پی سے پابندی کے خاتمے کے باوجود سعد رضوی کی رہائی کے کوئی آثار نہیں

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2021
وفاقی نظر ثانی بورڈ کا سعد رضوی کی نظر بندی کے معاملے پر سماعت کے لیے نئی تاریخ دینا ابھی باقی ہے۔ - فائل فوٹو:فیس بک
وفاقی نظر ثانی بورڈ کا سعد رضوی کی نظر بندی کے معاملے پر سماعت کے لیے نئی تاریخ دینا ابھی باقی ہے۔ - فائل فوٹو:فیس بک

لاہور: کالعدم تنظیم کے طور پر فرسٹ شیڈول سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا نام نکالنے کے بعد بھی اس کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے فوری طور پر کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کیونکہ وفاقی نظر ثانی بورڈ (ایف آر بی) نے پنجاب حکومت کے ان کی گرفتاری کے حوالے سے کیس کی سماعت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں لاہور ہائی کورٹ نے ٹی ایل پی کے سربراہ کی نظر بندی کے معاملے پر اس کی مدت ختم ہونے کے بعد پہلے ہی اسے بے اثر قرار دے دیا تھا وہیں ایف آر بی نے 6 نومبر کو سعد رضوی کی نظر بندی کے معاملے کی سماعت کرنی تھی تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور ان کی جانب سے نئی تاریخ دینا ابھی باقی ہے۔

دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک ونگ انصار الاسلام پر پابندی عائد کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:سعد رضوی کی نظر بندی کےخلاف درخواست واپس، لاہور ہائیکورٹ نے معاملہ نمٹادیا

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبائی حکومت کے کابینہ ونگ کو ایک ریفرنس بھیجا تھا جس میں تقریباً ایک سال قبل جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر دباؤ ڈالنے کے لیے انصار الاسلام پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جب ان کی جماعت نے اسلام آباد پر مارچ شروع کیا تھا۔

چند دوسری کالعدم تنظیمیں بھی اسی طرح کی ریلیف کا مطالبہ کررہی ہیں۔

ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ ریفرنس کابینہ ونگ کے پاس زیر التوا ہے۔

پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کی زیر صدارت ہونے والے پنجاب لا اینڈ آرڈر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ذرائع نے کہا کہ ’انصار الاسلام کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس کا ریفرنس کبھی بھی پنجاب کابینہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کے اجلاس میں انصار الاسلام سے متعلق کسی بھی معاملے پر بات نہیں ہوئی، پنجاب حکومت اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ گئی ہے‘۔

اجلاس میں موجود ایک ذرائع نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ٹی ایل پی کی ممنوعہ حیثیت کے خاتمے کی ایک مثال قائم ہونے کے بعد دیگر کالعدم تنظیمیں بھی اسی ریلیف کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعد رضوی، فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے مطالبے پر قائم تھے، شیخ رشید

رابطہ کرنے پر پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کمیٹی نے نہ تو انصار الاسلام سے متعلق کسی معاملے پر بات کی اور نہ ہی کسی اور کالعدم تنظیم کی درخواست اس کے سامنے پیش کی گئی۔

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جیسا کہ ایک مثال قائم کی گئی ہے دیگر کالعدم تنظیمیں بھی اسے ریلیف کے حصول کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

اس وقت وزارت داخلہ کی جانب سے 78 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جن میں اہل سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے)، سپاہ محمد پاکستان، سپاہ صحابہ پاکستان، جماعت الدعوۃ، جیش محمد، تحریک جعفریہ، لشکر جھنگوی، حزب التحریر اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے مختلف دھڑے شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا سعد رضوی کی رہائی پر غور

دریں اثنا اہل سنت والجماعت کے مرکزی صدر علامہ اورنگزیب فاروقی نے سپاہ صحابہ پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر پابندی نہ ہٹائی گئی تو حکومت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔

اسی طرح شیعہ علما کونسل شمالی پنجاب کے صدر علامہ سید سبطین حیدر رضوی نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحریک جعفریہ کی بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے اور تنظیم کے ساتھ ’امتیازی سلوک بند‘ کرے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ابھی تک کسی کالعدم تنظیم کی جانب سے ریلیف کے لیے کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں