ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر سینیٹ میں اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2021
پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا رویہ رکھا گیا تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دینا بہتر ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا رویہ رکھا گیا تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دینا بہتر ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: سینیٹ میں اپوزیشن نے حکومت کے اس تاخیری انکشاف پر سوال اٹھایا کہ وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے ایوان میں معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا فیصلہ کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کو غیر متعلقہ بنا دیا گیا ہے کیونکہ اسے محض اندھیرے میں رکھ کر کیے گئے اہم فیصلوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا رویہ رکھا گیا تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دینا بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، معید یوسف

انہوں نے نشاندہی کی کہ مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور ایک گھنٹہ قبل اسے ملتوی کر دیا گیا، قومی سلامتی سے متعلق تمام فیصلے نہ تو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے کیے جارہے ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جارہا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ امریکا کو فضائی راہداری دینے کے فیصلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور امریکی کانگریس سے یہ اطلاع آئی کہ پاکستان فضائی راہداری دینے پر امریکا سے بات چیت کر رہا ہے، جبکہ 2012 میں مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی تھی کہ پاکستان، امریکا کو فضائی راہداری نہیں دے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے بارے میں معلومات وزیر اعظم نے ایک ترک ٹیلی ویژن کو اپنے انٹرویو کے دوران شیئر کیں، وزیراعظم نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات کی اور اس کے بعد جنگ بندی کا بیان آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اس عرصے کے دوران متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے شامل تھے اور نام نہاد جنگ بندی کے دوران قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، آج پھر کہا جارہا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے لیکن اگر مذاکرات کرنے ہیں تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر صحافیوں، سیاست دانوں کی تنقید

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ پارلیمنٹ اس سے باہر ہونے والی پیش رفت کی توثیق نہیں کرے گی، ’حکومت کے پاس دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ پارلیمنٹ کا مینڈیٹ ہے، اگر پارلیمنٹ حکومت کو بااختیار بنائے تب ہی وہ مذاکرات کر سکتے ہیں‘۔

تین سال میں 28 ہزار سے زائد افراد نے جنس تبدیل کروائی

قبل ازیں وقفہ سوالات کے دوران ایوان کو بتایا گیا کہ جولائی 2018 سے جون 2021 تک 28 ہزار 723 افراد نے جنس تبدیل کروائی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کے ایک سوال کے تحریری جواب میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے صنفی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا، تاہم طبی وجوہات کی بنا پر یا درخواست جمع کروانے پر صنف میں ترمیم کی جاتی ہے۔

ایوان کے ساتھ شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مرد سے عورت میں جنس کی تبدیلی کے 16 ہزار 530 کیسز پر کارروائی کی گئی، 12 ہزار 154 کیسز خواتین سے مرد، 21 کیسز خواجہ سرا سے مرد، 9 کیسز مرد سے خواجہ سرا اور اتنے ہی کیسز خواجہ سرا سے خواتین کے شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر نے نادرا کی جانب سے جولائی 2018 سے جون 2021 تک صنفی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی کُل تعداد کے بارے میں معلومات مانگی تھیں، جن میں درخواست دہندگان کی اصل اور مطلوبہ جنس کے لحاظ سے تقسیم تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں