ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر صحافیوں، سیاست دانوں کی تنقید

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2021
شیری رحمٰن نے طالبان سے مذکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹوز: ڈان نیوز/اے ایف پی
شیری رحمٰن نے طالبان سے مذکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹوز: ڈان نیوز/اے ایف پی

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کچھ گروہوں سے مذاکرات اور عام معافی کے بیان جبکہ اس معاملے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے پر سیاست دانوں اور صحافیوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ وزیراعظم نے دوبارہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو معافی دینے کی بات کی ہے، کیا انہوں نے پارلیمنٹ سے پوچھا کہ ہم اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا انہوں نے اس پر ٹی ٹی پی کا ردعمل لیا ہے؟

مزید پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

شیری رحمٰن نے اس سے قبل بدھ کو سینیٹ میں بھی اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کو عام معافی دیں گے، ہمیں اس کی تفصیلات دیں، آپ ان لوگوں کو کیسے معافی دے سکتے ہیں جنہوں نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا، آپ ان لوگوں کو کیسے معافی دے سکتے ہیں جو سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے ذمے دار ہیں، آپ یہ فیصلے کہاں کررہے ہیں اور دنیا آپ پر ہنس رہی ہے۔

علاوہ ازیں سینئر صحافی سلیم صافی نے بھی اس بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں عرض کرتا رہا ہوں کہ ایسے حکمران کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاش وزیراعظم بنوانے سے پہلے ان کو سفارتی امور پر بات کرنے کی تربیت بھی دے دی جاتی یا کاش شاہ محمود میں اتنی ہمت ہوتی کہ ان کے سامنے کہہ سکتے کہ اس طرح کے معاملات پر اس انداز میں بولنے کا نقصان ہوتا ہے۔

اسی معاملے پر صحافی و اینکر غریدہ فاروقی نے کہا کہ وزیر اعظم نے تصدیق کی ہے کہ حکومت، افغان طالبان کی مدد سے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کررہی ہے لیکن ایک کالعدم تنظیم کے لیے ہم اتنا کیوں جھک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کالعدم تنظیم نے ہماری عام معافی کو مسترد کردیا جو ہمارے منہ پر طمانچے کی مانند ہے لیکن اس کے باوجود ہم جھکے جا رہے ہیں، آخر کیوں اور کس لیے، کیا ہم مزید 80 ہزار افراد شہید کرانا چاہتے ہیں۔

صحافی احسان اللہ ٹیپو نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات افغانستان میں جاری ہیں لیکن اس حساس عمل کو خفیہ رکھنا چاہیے تھا۔

پیپلزپارٹی رہنما شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ٹی ٹی پی کو این آر او دے رہے ہیں؟، وزیر اعظم ٹی ٹی پی کو این آر او دے رہے ہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں معصوم بچوں، بہادر فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو قتل کیا، یہ بہت عجیب ہے۔

پیپلز پارٹی کا پارلیمان کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

ادھر پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق بیان پر فوری طور پر پارلیمان کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

پی پی پی کے رہنما نیئر بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بیان انتہائی حساس ہے اور انہوں نے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کو معاف کردینے کا بیان بھی دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق پارلیمان کو بائے پاس کیا گیا ہے اور پارلیمان کو بتایا جائے کہ افغانستان میں جاری مذاکرات کی کیا شرائط ہیں۔

نیئر بخاری نے سوال کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو بے خبر کیوں رکھا گیا؟ اس طرح کے اقدامات سے بین الاقوامی سطح تک ملک سے متعلق منفی تاثر جنم لے گا لہٰذا حکومت فوری طور پر پارلیمان کا اجلاس بلاکر مذاکرات سے متعلق اعتماد میں لے۔

ٹی ٹی پی کے کچھ گروہوں سے بات چیت ہورہی ہے، وزیراعظم

واضح رہے کہ ترک میڈیا 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے چند گروپس ہم سے مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی آئینِ پاکستان کے تحت چلنا چاہے تو عام معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔

عمران خان نے کہا کہ 'ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے'۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صدر مملکت بھی ہتھیار ڈالنے کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کا عندیا دے چکے ہیں۔

گزشتہ ماہ ڈان نیوز کے پروگرام 'خبر سے خبر' کے لیے دیئے گئے انٹرویو میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ اگر ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، تو پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں'۔

مزید پڑھیں: 'دہشت گرد' کہنے سے گریز کریں ورنہ دشمنوں کی طرح پیش آئیں گے، ٹی ٹی پی کی میڈیا کو دھمکی

انہوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر اگر یہ لوگ پاکستان کے آئین کی پابندی کرتے ہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے کوئی معافی کا اعلان کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں