روپے سے متعلق قیاس آرائیوں میں نجی بینک ملوث ہیں، اسٹیٹ بینک

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2021
اسٹیٹ بینک کے گورنر نے شرح مبادلہ میں عدم استحکام پر شدید تشویش کا اظہار کیا — فائل فوٹو / رائٹرز
اسٹیٹ بینک کے گورنر نے شرح مبادلہ میں عدم استحکام پر شدید تشویش کا اظہار کیا — فائل فوٹو / رائٹرز

اسٹیٹ بینک نے کرنسی کے کاروبار میں نجی بینکوں کی قیاس آرائیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اربوں روپے کے کھیل میں ملوث ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بینکنگ ذرائع نے کہا کہ جمعرات کو اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس اسٹیٹ بینک میں منعقد ہوا جس میں کم از کم دس بڑے بینکوں کے صدور نے شرکت کی۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر نے شرح مبادلہ میں عدم استحکام پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور قیاس آرائیوں کے لیے بینک کے خزانچیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

بینکوں نے اس الزام کی تردید کی لیکن مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے گورنر کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ نے نہ صرف شرح مبادلہ کو غیر مستحکم کردیا ہے بلکہ اس کے فری فلوٹ ایکسچینج ریٹ کے سبب اس صورتحال کو سنبھالنا مرکزی بینک کیلئے بھی مشکل بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 13.4 فیصد گر چکی ہےاس لیے عالمی مبصرین نے بھی اس سال روپے کی کارکردگی کو بدترین قراردیا ہے۔

مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ روپے اور ڈالر کی قیمتوں میں زبردست اتار چڑھاؤ سے بینکوں میں موجود ڈیلرز پیسے بٹور رہے ہیں۔

بینکرز ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں لیکن کرنسی کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے ماہرین کو یقین ہے کہ بینک اس میں ملوث ہیں۔

رواں سال ڈالر کی قدرمیں اضافے سے پیدا ہونےوالے اتار چڑھاؤ کے تسلسل کے باعث کرنسی سے متعلق قیاس آرائیوں کی گنجائش پیدا ہوئی۔

ڈالر کی قدر میں حالیہ اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ اکتوبر تک گزشتہ چار مہینوں کے دوران 15 بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی اضافہ ہوا جو پہلے سہ ماہی دورانیے میں سالانہ ہدف سے تجاوز کر گیا اور کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سرحد پارڈالر کی اسمگلنگ بھی روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ بنی۔

مزید پڑھیں: گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں 7 فیصد اضافہ

آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے لیے طویل مذاکرات اور پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر بھی روپے کی قدر میں گراوٹ کی اہم وجہ ہیں جن سے قیاس آرائی کرنے والوں کیلئے کافی گنجائش پیدا ہوئی۔

اسٹیٹ بینک نے 7 اکتوبر کو اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے 500 ڈالر یا اس سے زیادہ کی خریداری کرنے والوں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کو لازمی قرار دے دیا تھا جس کے نتیجے میں اوپن کرنسی مارکیٹ میں تجارتی حجم پہلے کے مقابلے میں 10 فیصد تک گرگیا تھا۔

کرنسی کی تجارت کے لیے استعمال ہونے والی لیکویڈیٹی کو کم کرنے کے لیے مرکزی بینک نے نجی بینکوں کے لیے نقد ذخائر کی مطلوبہ ضرورت کو بھی 5فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد کر دیا ہے۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق جمعرات کو اسٹیٹ بینک کے گورنر کے ساتھ نجی بینکوں کے سربراہان کے اجلاس کے نتائج آنے والے سیشنز میں ظاہر ہوں گے، لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ڈالر کی خریداری میں کمی نہیں آسکتی کیونکہ درآمدات اب بھی بلند سطح پر ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں