گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں 7 فیصد اضافہ

01 اگست 2021
اوپن مارکیٹ میں ڈالر 163.50 روپے میں ٹریڈ ہوا لیکن ٹرن آؤٹ کم رہا کیونکہ اس کی اوپن مارکیٹ میں ڈیمانڈ اب بھی کم ہے— فوٹو: ڈان
اوپن مارکیٹ میں ڈالر 163.50 روپے میں ٹریڈ ہوا لیکن ٹرن آؤٹ کم رہا کیونکہ اس کی اوپن مارکیٹ میں ڈیمانڈ اب بھی کم ہے— فوٹو: ڈان

آنے والے مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں ممکنہ اضافے کے پیش نطر ڈالر کی خریداری بڑھ گئی ہے جس کے وجہ سے رواں سال مئی سے اب تک روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعے کو 54 پیسے کے اضافے کے بعد ڈالر 162.43 پیسے پر ٹریڈ ہوا، روپے کے مقابلے7 فیصد اضافہ دیکھا گیا، مئی میں ڈالر 152 روپے 28 پیسے کی کم شرح پر ٹریڈ ہوا تھا۔

مئی سے اب تک ڈالر کی قیمت میں10.15 پیسے اضافہ ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرح تبادلہ اسٹیٹ بینک کے زیر انتظام نہیں ہے لیکن یہ ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ایکسچینج ریٹ مستحکم بھی نہیں ہے۔

کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاونٹ خسارے سے زر مبادلہ کے ذخائر کی شرح بھی کم ہوئی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کی اطلاعات کے مطابق ڈالر کی طلب میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے 20 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر 9 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

ایکسپورٹر اور کرنسی ڈیلر عاطف احمد کا کہنا تھا کہ رواں سال جون میں برآمدات کا بل 6 ارب رہا جس سے واضح ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کی اطلاعات کے مطابق مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 2 سے 3 فیصد ہوگا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قدر میں مزید اضافے سے بچنے کے لیے درآمدات کنندگان کو جتنا زیادہ ممکن ہو بکنگ کرنی ہو گی۔

حال ہی میں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے مانٹیری پالیسی کے اعلان کے دوران میڈیا سے کہا کہ ایکسٹرنل فنانسگ ضروریات تقریباََ 20 ارب ڈالر ہے جنہیں مالی سال 2022 میں پورا کرنے کی توقعات کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2021مارکیٹ پر مبنی زر مبادلہ کی لچکدار شرح کا نظام، لچکدار ترسیلات اور دیگر عوامل کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنے میں مستحکم جی ڈی پی کی میں شرح 2 سے 3 فیصد مددگار ثابت ہوں گے۔

مزید پڑھیں :درآمدات اور ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود چینی کی قیمت میں پھر اضافہ

عاطف احمد نے مزید کہا کہ یہ انفارمیشن زرمبادلہ کا مستقبل،ڈالر کی طلب اور روپے اور ڈالر کی قدر سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پوزیشن گزشتہ سال سے مضبوط اور مالی سال 2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 0.6 فیصد ہے جبکہ کرنسی ماہرین نے کچھ دیگر عوامل کی بھی نشاندہی کی ہے جو روپے کی قدر میں بہتری میں مددگار ثابت ہوں گے۔

افغانستان میں عدم استحکام کے باعث پاکستان کی معیشت متاثر ہوسکتی ہے اور اس امر سے متعدد افراد کی ڈالر کی خریداری کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے جبکہ کرونا وائرس کی چوتھی لہر بھی مقامی کرنسی کے لیے ایک اور منفی رجحان کا سبب بنی ہے جس کی وجہ سے عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے کہا کہ کووڈ-19 معاشی ترقی کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور اس سے ایکسچنج پر منفی اثراٹ مرتب ہوں گے۔

اوپن مارکیٹ میں ڈالر 163.50 روپے میں ٹریڈ ہوا لیکن ٹرن آؤٹ کم رہا کیونکہ اس کی اوپن مارکیٹ میں ڈیمانڈ اب بھی کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں