ویکسین کی تین خوراکیں ’اومیکرون‘ کی شدت کم کرتی ہیں، ماہرین

11 دسمبر 2021
تین خوراکیں 75 فیصد تک محفوظ بنادیتی ہیں، ماہرین—فوٹو: اے پی
تین خوراکیں 75 فیصد تک محفوظ بنادیتی ہیں، ماہرین—فوٹو: اے پی

برطانوی طبی ماہرین نے کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ پر کی گئی مختصر تحقیق کے نتائج کو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی تین ویکسینز لگوانے والے افراد میں ’اومیکرون‘ کی شدت کم ہوتی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق برطانوی ماہرین نے ملک میں ’اومیکرون‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد 600 کے قریب افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لینے سمیت ان پر تجربہ بھی کیا۔

ڈیٹا اور تجربے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی تین خوراکیں لینے والے افراد ’اومیکرون‘ کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسے افراد میں 75 فیصد علامات ظاہر ہی نہیں ہو پاتیں۔

ماہرین کے مطابق اس سے قبل ’ڈیلٹا‘ ورینٹ پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ دو خوراکیں کورونا کی خطرناک اقسام پر اتنا اثر نہیں کرتیں اور اب نئے تجربے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ جن افراد نے بوسٹر ڈوز لگوا رکھے ہیں، ان میں ’اومیکرون‘ کی شدت کم ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا اومیکرون کورونا کی بہت زیادہ متعدی قسم ہے؟

ماہرین نے لوگوں کو تجویز دی کہ ’اومیکرون‘ سمیت ’ڈیلٹا‘ جیسی اقسام کی شدت سے بچنے کے لیے کم از کم تین خوراکیں لگوائی جائیں اور جن افراد نے دو خوراکیں لے رکھیں ہیں وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں۔

ماہرین نے بتایا کہ تین خوراکیں لینے والے افراد اگر ’اومیکرون‘ کا شکار بھی ہو رہے ہیں تو ان میں اس کی شدت کم ہوجاتی ہے اور وہ جلد صحت یاب ہو رہے ہیں۔

برطانوی ماہرین نے مذکورہ تحقیق ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ وہاں ’اومیکرون‘ کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور اب تک وہاں 1200 سے زائد ’اومیکرون‘ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

برطانیہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں اب کورونا کا شکار ہونے والے ہر تیسرے شخص میں ’اومیکرون‘ کی قسم کی تشخیص ہو رہی ہے اور اگر یہی سلسلہ رہا تو دسمبر کے آخر تک کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔

برطانوی سائنسدانوں سے قبل جنوبی افریقی سائنسدانوں نے کہا تھا کہ اب تک کے تجزیے کے مطابق ’اومیکرون‘ اتنی تیزی سے نہیں پھیل رہا، جتنا اس کا اندازہ لگایا گیا تھا اور یہ کہ مذکورہ نئی قسم میں مبتلا ہونے والے افراد حد سے زیادہ بیمار بھی نہیں ہو رہے۔

مزید پڑھیں: اومیکرون بظاہر کورنا کی بہت زیادہ متعدی قسم ہے، ڈبلیو ایچ او

اس سے قبل 25 یا 26 نومبر کو جب جنوبی افریقہ میں پہلی بار ’اومیکرون‘ کی تشخیص ہوئی تھی تو وہاں کے سائنسدانوں نے اسے اب تک کی خطرناک قسم قرار دیا تھا۔

’اومیکرن‘ گزشتہ دو ہفتوں میں 5 درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے، تاہم اب تک کی اطلاعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتلا ہونے والے افراد میں موت کی شرح کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9 دسمبر کو ’اومیکرون‘ کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی تھی جب کہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

اگرچہ زیادہ تر ممالک کے ماہرین نے ’اومیکرون‘ کو سب سے متعدی یعنی پھیلنے والی قسم قرار دیا ہے، تاہم تاحال اس سے کوئی موت ریکارڈ نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں