پیٹرول، ڈیزل کی مقامی پیداوار 60 فیصد تک بڑھائی جاسکتی ہے، ماہرین

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2021
مقامی ریفائنریز کو آپریشنل مسائل کا سامنا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
مقامی ریفائنریز کو آپریشنل مسائل کا سامنا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) اور پیٹرول کی مقامی پیداوار ممکنہ طور پر بالترتیب 60 اور 48 فیصد بڑھائی جاسکتی ہے جس سے زرمبادلہ کی بڑی بچت اور مقامی ریفائنریز مکمل صلاحیت پر کام کرسکیں گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ (جولائی تا نومبر) میں درآمدات 83 فیصد بڑھانے میں سب سے بڑا حصہ تیل بالخصوص ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل کا تھا۔

اس سے حکومتی حلقوں میں بے چینی پھیلی کیوں کہ رواں ماہ کے آغاز سے روپے کی قدر اور حصص منڈی میں ڈرامائی کمی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے تیل و گیس کی پیداوار کی ریئل ٹائم نگرانی شروع کردی

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ نومبر کا درآمدی بل ایک ارب 40 کروڑ ڈالر تک بڑھانے میں سب بڑا 50 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا اضافی بوجھ پیٹرولیم مصنوعات کی بلند قیمتوں کی وجہ سے پڑا۔

انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حکومتی پالیسیوں میں خامیاں ہیں کیوں کہ مقامی ریفائنریز کم گنجائش میں کام کر رہی ہیں اور ریفائنڈ مصنوعات درآمد ہو رہی ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، یہ خامی ہے۔

مقامی ریفائنریز کے پاس ذخیرہ کرنے کی انتہائی محدود گنجائش کے باوجود بجلی بنانے والی کمپنیاں طے شدہ مقدار سے کم فرنس آئل اٹھا رہی ہیں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں (او ایم سیز) بھاری مقدار میں پیٹرول اور ڈیزل درآمد کر رہی تھیں جس کے باعث مقامی ریفائنریز کو آپریشنل مسائل کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: آئل مارکیٹنگ کمپنیوں، پیٹرولیم ڈیلرز کے مارجن میں 25 فیصد تک اضافہ منظور

حیران کن طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے کسٹم پالیسی رکن سعید جدون نے ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں کوئی تبدیلی یا اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔

صنعتی ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 5 مقامی ریفائنریز اصل سے کم صلاحیت پر کام کررہی ہیں۔

یہ 5 ریفائنریز مکمل صلاحیت استعمال کر کے ماہانہ 2 لاکھ 74 ہزار ٹن پیٹرول پیدا کرسکتی ہیں لیکن اس وقت ایک لاکھ 70 ہزار ٹن ماہانہ پر کام کر رہی ہیں جو صلاحیت سے 60 فیصد کم ہے۔

اسی طرح ریفائنریز سالانہ 33 لاکھ ٹن پیٹرول پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کی مجموعی پیداوار اندازاً 20 لاکھ 50 ہزار ٹن ہے یعنی 12 لاکھ 50 ہزار ٹن کم جسے اضافی درآمد سے پورا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تیل کی درآمد کا بل پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد بڑھ گیا

اسی طرح مقامی ریفائنریز 4 لاکھ 90 ہزار ٹن ماہانہ کی صلاحیت کے باوجود ماہانہ 3 لاکھ 30 ہزار ٹن ڈیزل پیدا کر رہی ہیں جبکہ پورے سال کی پیداوار اندازاً 39 لاکھ 60 ہزار ٹن ہے جو 59 لاکھ ٹن کی ممکنہ صلاحیت سے 19 لاکھ 20 ہزار ٹن کم ہے۔

حکومت کو فراہم کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اٹک ریفائنریز اپنی گنجائش سے 23 فیصد کم پیٹرول اور 50 فیصد کم ڈیزل پیدا کر رہی ہے اور پاک ارب ریفائنری کی پیٹرول اور ڈیزل کی پیداوار بالترتیب 52 اور 42 فیصد کم ہے۔

نیشنل ریفائنری کی پیٹرول اور ڈیزل کی پیداوار 108 اور 80 فیصد کم جبکہ پاکستان ریفائنری کی پیداوار دونوں مصنوعات میں گنجائش سے 30 فیصد کم ہے۔

بائیکو ریفائنری 65 ہزار ٹن کی صلاحیت سے 106 فیصد کم یعنی 25 ہزار ٹن پیٹرول پیدا کر رہی جبکہ اس کی ڈیزل کی پیداوار 80 ہزار ٹن کی صلاحیت سے 45 فیصد کم یعنی 55 ہزار ٹن ہے۔

مزید پڑھیں: خفیہ ایجنسی نے آئل ریفائننگ پالیسی پر اعتراضات اٹھا دیے

گزشتہ ہفتے آئل اینڈ پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹوریٹ جنرل (ڈی جی) نے محدود ریفائننگ اور بجلی کی کمپنیوں کی جانب سے وعدے نہ پورے کرنے کی وجہ سے ذخیرے کی کم گنجائش کی وجہ سے آئل ریفائنریز کے مالی نقصانات اور سپلائی چین کی مشکلات کے حوالسے سے خبردار کیا تھا۔

ڈی جی آئل نے کہا تھا کہ آئل ریفائنریز ایک کروڑ 10 لاکھ ٹن سالانہ مختلف پیٹرولیم مصنوعات فراہم کررہی تھیں لیکن فرنس آئل کم اٹھانے کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی سے پیداوار کم کرنے اور خام تیل کی پراسیسنگ بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں جس سے دیگر تمام پیٹرولیم مصنوعات کی دستیابی اور پہلے سے نازک سپلائی چین متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس سال آئی پی پیز کو خاطر خواہ ادائیگیاں کی گئیں جس کی ایک شرط یہ تھی کہ پاور پلانٹس او ایم سیز کے ساتھ ایندھن کی فراہمی کے معاہدوں کے مطابق لازمی اسٹاک رکھیں گے لیکن پاور پلانٹس کے تمام اسٹوریج خالی تھے اور آئی پی پیز لازمی 30 دنوں کے مقابلے میں دو سے تین دن کا ذخیرہ محفوظ کر رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریفائنریز بھاری مالی نقصان پر فرنس آئل برآمد کرنے پر مجبور ہیں جس سے پہلے سے زیادہ بوجھ والے بندرگاہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ اور صنعت کو بھی بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں