آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کیلئے ٹیکس قوانین میں ترامیم تجویز

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2021
ایف بی آر کے چیئرمین نے سینئر کسٹم افسران کے کچھ اختیارات واپس لینے کی تجویز دی ہے—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
ایف بی آر کے چیئرمین نے سینئر کسٹم افسران کے کچھ اختیارات واپس لینے کی تجویز دی ہے—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

اسلام آباد: ساڑھے 3 سو ارب روپے کے سالانہ ریونیو اثرات کے ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کسٹمز، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس سے متعلق 3 اہم قوانین کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے سروسز ٹیکس قانون میں ترمیم کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کا مقصد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی 'پیشگی شرائط' کو پورا کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے درکار تقریباً ایک ارب ڈالر کی آمد کو محفوظ بنانا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کی بریفنگ کے لیے وزیر اعظم کے مشیرِ خزانہ شوکت ترین کے ساتھ شیئر کیے گئے ریونیو اقدامات سے متعلق سمری کے مطابق چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق احمد نے ریاست کے لیے خاطر خواہ ریونیو پیدا کرنے کے مقصد کے ساتھ ترقیاتی شراکت داروں کی مدد سے ٹیکس اصلاحات کے حصول کے لیے فنانس (ضمنی) بل 2021 کی اہم خصوصیات کی وضاحت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کردیے

دیگر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ بشمول ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی اور خصوصی سیکیورٹی اداروں کے لیے گرانٹس میں تقریباً 50 ارب روپے کی کمی کے لیے ضمنی فنانس بل رواں ہفتے کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

بین الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے جاری کردہ اصلاحاتی مشق کا بنیادی مقصد ’ٹیکس کے نظام کو مثالی اصولوں پر اور بغیر کسی بگاڑ کے از سر نو تشکیل دینا‘ ہے جبکہ انتظامی اصلاحات پہلے ہی 'موجودہ حکومت' کی طرف سے شروع کی جاچکی ہیں تاکہ جامع اصلاحات اور پائیدار اقتصادی ترقی کے ذریعے معاشی اور مالی استحکام حاصل کیا جاسکے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے چیئرمین نے سینئر کسٹم افسران کے کچھ اختیارات واپس لینے کی تجویز دی ہے جسے ٹیکس مشینری کے اندر بہت سے لوگ این آر او سے تعبیر کرتے تھے۔

ریونیو جنریشن کے لحاظ سے سیلز ٹیکس قانون کے تحت استثنیٰ واپس لینا اور مختلف شرح کا خاتمہ اضافی ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ نظر آتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'رواں برس ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف بآسانی حاصل ہوجائے گا'

اس ضمن میں سیکڑوں آئٹمز کی ایک لمبی فہرست ہے جو سیلز ٹیکس کی بلند شرح اور نئے ٹیکس کے اطلاق کو راغب کرے گی۔

سمری میں کہا گیا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تحت پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹنگ کو ہموار کرنے کی تجویز ہے اور کچھ اندراجات کو واپس لیا جانا ہے۔

اس کے علاوہ چھٹے شیڈول کے تحت استثنیٰ کے نظام کو دواسازی کے شعبے سمیت کم کرنے کی تجویز ہے اور اسے صرف ضروری اشیا کی درآمد اور مقامی سپلائی تک محدود رکھنے کی تجویز ہے۔

مزید برآں ٹیکس نظام میں مساوات کے حصول کے لیے بعض اشیا پر آٹھویں شیڈول کے تحت سیلز ٹیکس کی کم شرح کو ہموار کرنے کی تجویز ہے۔

شیڈول میں سیکڑوں آئٹمز ہیں جن پر 17 فیصد معیاری سیلز ٹیکس کی شرح کے بجائے فی الحال ایک فیصد، 2 فیصد، 5 فیصد، 6 فیصد، 7 فیصد، 8 فیصد، 10 فیصد اور 12 فیصد کی مختلف سیلز ٹیکس کی شرحیں لاگو ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نان فائلر تجارتی، صنعتی اداروں پر اضافی ٹیکس عائد

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ اسی طرح نویں شیڈول کے تحت سی بی یو (مکمل تیار یونٹ) حالت میں اعلیٰ درجے کے موبائل فونز کی درآمد پر سیلز ٹیکس کو معقول بنانے کی تجویز ہے۔

اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (ٹیکس آن سروسز) آرڈیننس 2001 کے تحت وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے چند نوٹی فکیشنز میں کچھ سروسز کے لیے کم شرح کا تعین کیا گیا تھا جو کہ اب آرڈیننس کے شیڈول میں کیا جارہا ہے۔

سمری میں کہا گیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں کم سے کم ترامیم کا مقصد ڈیجیٹل اکانومی، دستاویزات اور سہولت کاری کے اقدامات کو فروغ دینا ہے، اس کے علاوہ غیر ملکی ڈرامہ سیریلز پر ایڈوانس ٹیکس متعارف کرانے اور سیلولر سروسز پر بھی تھوڑا سا اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔

ترقیاتی شراکت داروں، قانون کی حکمرانی اور دیانتداری کے تقاضوں کے مطابق انکم ٹیکس قانون میں اعلیٰ سطح کے سرکاری عہدیداروں سے متعلق معلومات سامنے لانے کی بھی تجویز ہے۔

ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے لیے ٹیکس میں چھوٹ ان کے ذیلی اداروں تک بھی بڑھائی جارہی ہے جنہیں اسپیشل پرپز وہیکلز کہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں