کراچی میں طالبعلم کا قتل، ایس ایچ او کو پولیس تحویل میں دے دیا گیا

15 دسمبر 2021
تحریک انصاف کے مقامی رہنما کے 18 سالہ بیٹے ارسلان محسود کو 6 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن نمبر 5 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
تحریک انصاف کے مقامی رہنما کے 18 سالہ بیٹے ارسلان محسود کو 6 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن نمبر 5 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں کالج کے طالب علم ارسلان محسود کے قتل کے مقدمے میں اورنگی ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اعظم گوپانگ کو غیرقانونی اسلحہ کیس میں 19 دسمبر تک پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقامی رہنما کے 18 سالہ بیٹے ارسلان محسود کو 6 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن نمبر 5 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: مبینہ پولیس مقابلے میں کالج طالبعلم کو قتل کرنے والا پولیس اہلکار گرفتار

اس کے بعد اعظم گوپانگ، پولیس کانسٹیبل توحید اور ان کے دوست عمیر کے خلاف قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور کانسٹیبل اور ان کے دوست کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

منگل کو اعظم گوپانگ کے خلاف غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی، جو مبینہ طور پر ارسلان محسود کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی جس کے بعد ایس ایچ او کو اسی دن عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے آج ملزم کو انسداد دہشت گردی کے جج کے سامنے پیش کیا اور غیر قانونی ہتھیاروں کے حوالے سے مزید تفتیش اور پوچھ گچھ کے لیے جسمانی ریمانڈ طلب کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مبینہ جعلی پولیس مقابلے پر ایس ایچ کو نوٹس جاری

تفتیشی افسر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عابد قائم خانی نے عدالت کو بتایا کہ ارسلان محسود کے والد نے قتل کے مقدمے میں ایس ایچ او کو نامزد کیا تھا لہٰذا ملزم سے غیرقانونی ہتھیار رکھنے کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ضرورت ہے جو مبینہ طور پر ارسلان محسود کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہتھیار کے کیمیائی تجزیے کے بعد ہم رپورٹ کے منتظر تھے اور اس وجہ سے تحقیقات ابھی نامکمل ہیں۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ اس ہتھیار کے فرانزک تجزیے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ ارسلان محسود کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔

انہوں نے عدالت سے اعظم گوپانگ کو 14 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دینے کی درخواست کی۔

دوسری جانب پراسیکیوٹر نے دلیل دی کہ اعظم گوپانگ کے خلاف درج کی گئی دونوں ایف آئی آر کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں 'جعلی پولیس مقابلے' کے خلاف شہریوں کا احتجاج

لیکن عدالت نے ایس ایچ او گوپانگ کو 19 دسمبر تک پولیس کی تحویل میں دے دیا، آئی او کو اگلی سماعت پر مشتبہ شخص کو پیش کرنے اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

سماعت کے بعد اعظم گوپانگ نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔

قتل کی ایف آئی آر

ارسلان محسود کے قتل کی ایف آئی آر تین ملزمان ایس ایچ او گوپانگ، کانسٹیبل توحید اور اس کے دوست عمیر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34، 109، 302، 324 اور 394 کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ بادشاہ خان نے بتایا کہ انہیں پیر کی رات 9 بج کر 15 منٹ پر ایک رشتہ دار نے اطلاع دی کہ ان کا بھتیجا ارسلان محسود اور ان کا دوست یاسر گولی لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں اور زخمیوں کو عباسی شہید ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں انہوں نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ اطلاع ملنے پر میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ فوری طور پر عباسی شہید ہسپتال پہنچا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا بھتیجا ارسلان فوت ہو گیا ہے، ارسلان کی عمر 16 سال تھی اور وہ کالج کا طالب علم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: جعلی مقابلے میں دو نوجوانوں کو زخمی کرنے کے الزام میں 4 پولیس اہلکار گرفتار

بادشاہ خان نے بتایا کہ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ ارسلان معمول کے مطابق اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر ٹیوشن کے لیے گیا تھا، رات ساڑھے 8بجے کے قریب واپس آتے ہوئے دونوں دوست اورنگی ٹاؤن تھانے کی حدود میں فائرنگ سے زخمی ہوئے، اہل خانہ نے بتایا کہ ابتدائی طور ہمیں لگا تھا کہ یہ ڈکیتی کے دوران پیش آیا۔

البتہ مزید استفسار پر یہ بات سامنے آئی کہ توحید نامی ایک پولیس اہلکار انٹیلی جنس ڈیوٹی پر تھا اور اس نے ارسلان اور یاسر پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں ارسلان کی موت واقع ہو گئی۔

اس واقعے کی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی تھی اور لواحقین کے احتجاج نے ڈی آئی جی شرقی ناصر آفتاب سمیت اعلیٰ حکام کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا تھا۔

ڈی آئی جی نے اعظم گوپانگ کی معطلی کا حکم دیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں