قازقستان میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف عوام کا احتجاج، حکومت برطرف

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2022
کابینہ کے استعفے کے باوجود سیکیورٹی فورسز ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں— فوٹو: رائٹرز
کابینہ کے استعفے کے باوجود سیکیورٹی فورسز ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں— فوٹو: رائٹرز

قازقستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جاری شدید اور پرتشدد عوامی احتجاج کے بعد صدر نے حکومت کو برطرف کردیا۔

خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق کابینہ نے استعفیٰ دے دیا لیکن اس باوجود احتجاج جاری ہے اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی بدامنی پر قابو پانے میں سیکیورٹی فورسز ناکام رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: قازقستان کے صدر نے خاتون سینیٹ چیئرمین کو عہدے سے ہٹا دیا

چندمظاہرین نے 81 سالہ نورسلطان نذر بائیف کے خلاف نعرے بازی کی جو 2019 میں قازقستان کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے حکمران کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے باوجود ملک میں وسیع اختیارات کے مالک تھے۔

نذر بائیف کے جانشین صدر قاسم جومارت توکائیف نے کہا کہ انہوں نے سلامتی کونسل کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

سابق صدر کو اب بھی بڑے پیمانے پر دارالحکومت نور سلطان میں اہم سیاسی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا خاندان زیادہ تر معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔

بدامنی اور احتجاج کے بعد سے قازقستان بھر میں انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے یہ بات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی کہ آیا نظر بائیف کو سلامتی کونسل کے عہدے سے ہٹانے سے مظاہرین مطمئن ہوئے ہیں یا نہیں، توکائیف نے نظر بائیف کے بھتیجے کو بھی ریاستی سلامتی کمیٹی میں دوسرے سب سے بڑے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔

قازق بلاگر کی انسٹاگرام لائیو اسٹریم میں مرکزی شہر الماتی کے میئر کے دفتر میں آگ بھڑکتی ہوئی دکھائی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اطراف سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں قریبی پراسیکیوٹر کے دفتر کو بھی جلتے ہوئے دکھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: قازقستان: فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی

اس سے قبل بدھ کے روز ہزاروں مظاہرین کو الماتی شہر کے مرکز کی طرف دھکیلتے ہوئے دیکھا گیا جہاں ان میں سے چند افراد ایک بڑے ٹرک پر سوار تھے، ہیلمٹ اور شیلڈز میں ملبوس سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور دستی بم فائر کیے۔

اس حوالے سے پولیس سربراہ نے اپنے بیان میں کہا کہ الماتی شدت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے حملے کی زد میں تھا جنہوں نے 500 شہریوں کو مارا پیٹا اور سینکڑوں کاروباری مقامات میں لوٹ مار کی۔

احتجاج اور ہنگاموں کا آغاز سب سے پہلے دارالحکومت نور سلطان، الماتی اور مغربی صوبے منگسٹاؤ میں ہوا جہاں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے صحافیوں نے بتایا کہ بدامنی پھیلتے ہی انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے جبکہ انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کی عالمی سطح پر نگرانی کرنے والے سائٹ نیٹ بلاکس نے بھی تصدیق کی کہ قازقستان کو قومی سطح پر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی صورت حال درپیش ہے۔

اگرچہ بدامنی ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی لیکن اس میں زیادہ تر سیاسی مطالبات کیے گئے۔

مزید پڑھیں: قازقستان کے صدر کا 3 دہائیوں بعد مستعفی ہونے کا اعلان

قازقستان کے شہر اکتوبی میں سیکڑوں مظاہرین ایک چوک پر جمع ہو کر نعرے لگاتے رہے جبکہ ایک ویڈیو میں پولیس کو میئر کے دفتر کے قریب مظاہرین کے خلاف واٹر کینن اور اسٹن گرینیڈ کا استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

کابینہ کی جانب سے استعفیٰ قبول کرنے کے بعد توکائف نے قائم مقام وزرا کو ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لینے کا حکم دیا کیونکہ ان وزرا نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا جس سے لیکویفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمت دوگنی ہو گئی تھی، گیس کو قازقستان میں گاڑیوں کے لیے بجلی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بدولت اس کی قیمت پیٹرول سے بہت کم ہو جاتی ہے۔

نظربائف کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کی بدولت قازقستان تیل اور دھاتی صنعتوں میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد ملی تھی۔

بدامنی کی وجہ سے قازقستان کے ڈالر بانڈز کی قیمت میں تقریباً 6 سینٹ کی کمی واقع ہوئی جو گزشتہ سال کووڈ-19 کے بعد سے ملکی معیشت کی بدترین صورت حال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قازقستان: فوکر طیارہ گر کر تباہ، 14 مسافر ہلاک

قازقستان روس کا قریبی اتحادی ہے اور روس نے امید ظاہر کی ہے کہ قازقستان اپنے داخلی مسائل جلد حل کر لے گا تاہم انہوں نے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ وہ قازقستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

قازقستان بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دباؤ سے نمٹ رہا ہے، افراط زر کی شرح سال ہا سال بنیادوں پر 9فیصد رہی جو گزشتہ پانچ سال کے دوران بلند ترین سطح ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں