سٹیلائٹ تصاویر میں چین کی بھوٹان کے ساتھ متنازع سرحد پر تعمیرات کا انکشاف

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2022
چین۔بھوٹان متنازع سرحدی علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر—فائل فوٹو: رائٹرز
چین۔بھوٹان متنازع سرحدی علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر—فائل فوٹو: رائٹرز

خبرایجنسی رائٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ سیٹلائٹ سے حاصل تصاویر کے مطابق چین نے بھوٹان کے ساتھ متنازع سرحد کے ساتھ 6 مقامات پر دو منزلہ عمارت سمیت 200 سے زائد عمارتوں کی تعمیرمیں تیزی لانے کا انکشاف ہوا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ میں بتایا کہ امریکی ڈیٹا اینالیکٹس فرم ہاک آئی 360، جو کہ زمین پر ہونے والی سرگرمیوں سے متعلق حساس معلومات جمع کرنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کو استعمال کرتی ہے اور دو دیگر ماہرین کی جانچ پڑتال سے بھوٹان کی سرحد کے ساتھ چین کی حالیہ تعمیرات کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں۔

ہائی آئی 360 کے مشن ایپلی کیشن ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ بھوٹان کی مغربی سرحد کے ساتھ تعمیرات سے متعلق سرگرمیاں 2020 کی ابتدا سے جاری ہیں، سٹیلائٹ امیجز فرم کیپلا اسپیس اینڈ پلانیٹ لیبز کی جانب سے فراہم کیے گئے مواد کے مطابق چین ابتدا میں سڑکیں بنا رہا ہے اور علاقوں کو کلیئر کر رہا ہے۔

فرم کے ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ تصاویر سے لگتا ہے کہ 2021 میں کام میں تیزی آئی، آلات اور سامان رکھنے کے لیے پہلے ممکنہ گھروں کے چھوٹے ڈھانچے کھڑے کیے گئے، جس کے بعد بنیادیں رکھی گئیں اور عمارتیں تعمیر کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں :بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

مذکورہ مقامات کی تصاویر کا جائزہ لینے والے دو اور ماہرین کا کہنا تھا کہ تمام تعمیرات بھوٹان اور چین کے درمیان متنازع علاقے میں ظاہر ہورہی ہیں، جن میں 100 مربع کلومیٹر کا ٹریک بھی شامل ہے جو کہ مقامی آبادی کے وسائل سے بہت کم ہے۔

بھوٹان کے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سرحد سے متعلق عوام میں بات کرنا بھوٹان کی پالیسی نہیں ہے اور اس سے متعلق مزید بات کرنے سے انکار کردیا۔

ماہرین اور ایک بھارتی دفاعی ماہرکا کہنا تھا کہ تعمیرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنے سرحد سے متعلق دعوے کو ایک ٹھوس شکل دے رہا ہے۔

دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ تعمیرات کا مقصد صرف مقامی لوگوں کی زندگیوں اور کام کے لیے صورت حال بہتر کرنا ہے ۔

مزید پڑھیں :بھارت کا چین کی فوج پر سرحدی خلاف ورزی کا الزام

چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ اپنے علاقے میں تعمیراتی سرگرمیاں کرنا چین کی خودمختاری میں شامل ہے، چینی وزارت خارجہ نے مزید تبصرے سے انکار کردیا۔

مزید دو ماہرین کا کہنا تھا کہ گاؤں بھی بیجنگ کے لیےاسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نئی تعمیرات ڈوکلام کےعلاقے سے 9 سے 27 کلومیٹر تک ہیں جو کہ بھارت، بھوٹان اور چین کی سرحدوں کے جنکشن پر واقع ہے جہاں 2017 میں بھارت اور چین کی فوجیں آمنے سامنے بھی آگئیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیں :سرحدی تنازع: چین، بھارت کے خلاف فوجی کارروائی کیلئے تیار

ایک ماہر اور بھارتی دفاعی ذرائع کے مطابق یہ تعمیرات چین کو علاقے میں صورت حال قابو میں رکھنے اور نگرانی کرنے کے لیے اجازت دیں گی اور ممکنہ طور پر سلامتی سے متعلق تنصیبات میں مدد دیں گی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے معاملے پر تبصرے سے انکار کیا، بھوٹان جو کہ 80 لاکھ سے بھی کم آبادی کا حامل ملک ہے وہ تقریبا گزشتہ 4 دہائیوں سے بیجنگ کے ساتھ اپنی 477 کلومیٹر سرحد کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

معاملے پر بھوٹان کو صرف علاقائی خودمختاری کے خدشات نہیں ہیں بلکہ بھارت جو کہ اس کا اہم معاشی شراکت دار ہے، اس کےلیے سلامتی سے متعلق ممکنہ خدشات ہیں۔

بھوٹان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بھوٹان اور چین نے اپریل 2021 میں سرحدی مذاکرات میں تیزی لانے پر اتفاق کیا تھا تاہم وزارت خارجہ نے منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرنے سے انکار کیا۔

وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بھوٹان اور چین کے درمیان سرحد سے متعلق مذاکرات میں تمام معاملات پر بات کی گئی۔

امریکی پروفیسر کے مطابق بیجنگ کی اس خطے میں تعمیرات 2017 میں اعلان کیے گئے منصوبے کا حصہ لگتی ہیں، جس کے تحت چین نے تبت کے خودمختیار خطے کا چین کی طرف سرحدی علاقے میں 600 سے زائد گاؤں بنانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں :ڈوکلام: بھارتی اور چینی فوج کا سرحدی تنازع ختم کرنے کا فیصلہ

پروفیسر فریویل کا مزید کہنا تھا کہ تعمیرات کا مقصد سرحدی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر مزید بہتر کرنا اور علاقے میں اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنا ہے۔

واضح رہے کہ چین کی حکمرانی کے خلاف ناکام تحریک کے دوران دلائی لاما کے تبت سے فرار ہونے کے 6 سال بعد چین کا تبت کے خود مختار علاقوں میں قبضہ 1965 میں ہوا تھا۔

ڈوکلام کے علاقے پر کنٹرول چین کو اسٹریٹیجک اہمیت کےعلاقے میں بہتر رسائی دے گا جو بھارت کو اس کے شمال مغربی خطے سے جوڑتا ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 500 کلومیٹر کی متنازع سرحد ہے، سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجیں تعینات رہتی ہیں، ایک اور سرحد لداخ ریجن میں جو ڈوکلام سے تقریبا 1100 کلومیٹر دور ہے وہاں 2020 میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں ۔

یہ بھی پڑھیں :بھارت خیالی دنیا میں رہنے سے گریز کرے، چین کی وارننگ

ایک بھارتی دفاعی ذریعے نے معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت سرحد کے ساتھ تعمیرات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔

آسٹریلین اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ ریسرچ آرگنائزیشن کے ریسرچر نیتھن رسر کا کہنا تھا کہ بھارت اور بھوٹان کے لیے چینی تعمیرات کا جواب دینا ایک چیلنج ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی تنصیبات کے خلاف کوئی بھی کارروائی شہری آبادی کے لیے خطرات پیدا کرے گی، اس سے بھارت اور بھوٹان کے لیے متنازع علاقے میں چینی قبضہ روکنے کے راستے بہت محدود ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں