افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، معید یوسف کو طالبان کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 01 فروری 2022
مشیر قومی سلامتی نے افغان نائب وزیراعظم سے ملاقات کی---فوٹو: منصور خان ٹوئٹر
مشیر قومی سلامتی نے افغان نائب وزیراعظم سے ملاقات کی---فوٹو: منصور خان ٹوئٹر
پاکستان صحت و تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات میں افغانستان کی مدد کرے گا — فوٹو: منصور احمد خان ٹوئٹر
پاکستان صحت و تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات میں افغانستان کی مدد کرے گا — فوٹو: منصور احمد خان ٹوئٹر

افغانستان کے عبوری نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کی سربراہی میں کابل کا دورہ کرنے والے وفد کو یقین دہانی کروائی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت تمام ہمسائیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

کابل میں صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق عبدالسلام حنفی نے کہا کہ 'امارت اسلامی افغانستان کی پالیسی واضح ہے کہ ہم کسی کو بھی اپنے ہمسائیوں اور دیگر ممالک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے'۔

افغان دارالحکومت میں بین الوزارتی وفد کی میزبانی کے دوران انہوں نے کہا کہ 'ہم اسی طرح کے اقدامات کا دوسروں سے بھی توقع رکھتے ہیں'۔

--فوٹو: منصور خان ٹوئٹر
--فوٹو: منصور خان ٹوئٹر

طالبان حکومت کی جانب سے افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانی پاکستان پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے حملوں کے بعد کرائی گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جبکہ گزشتہ ماہ کالعدم تنظیم نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی توسیع سے انکار کیا تھا۔

دو طرفہ تعاون

افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور خان نے بھی ٹوئٹ میں بتایا کہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے عبدالسلام حنفی سے ملاقات کی، پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات مضبوط کرنے، تجارت، ٹرانزٹ اور رابطہ کاری بہتر کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس حوالے سے صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عبدالسلام حنفی نے پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں توانائی، کان کنی اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔

بیان کے مطابق انہوں نے ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن (تاپی)، ترکمانستان-افغانستان-پاکستان 500 کے وی لائن (ٹی اے پی-500) منصوبوں اور سینٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا الیکٹرک ٹرانسمیشن اور ٹریڈ پروجیکٹ (کاسا-1000)، افغانستان اور پاکستان کے لیے وسطی ایشیائی ممالک سے توانائی کی درآمد سمیت بڑے علاقائی منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔

عبدالسلام حنفی نے مدد کرنے اور افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان اور افغانستان دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں، جن کے تاریخی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور میں پراعتماد ہوں کہ یہ دوستانہ تعلقات پائیدار ہوں گے'۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اپنے برادر ہمسایہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، جو باہمی احترام کی بنیاد پر ہوں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور ٹرانزٹ تعلقات کو فروغ ملے۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امن اور استحکام معاشی تعلقات کے قیام کے بغیر یقینی نہیں ہوسکتے اور کہا کہ تجارتی اور ٹرانزٹ تعلقات میں توسیع دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اہم منصوبوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے اور دونوں ممالک کو نجی شعبے کی ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے جو صحت، تعلیم، تجارت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں مذاکرات کرے'۔

مزید بتایا گیا کہ دونوں فریقین نے افغانستان مسافروں اور مریضوں کو طورخم اور اسپن بولد میں داخلی راستوں میں مزید سہولیات یقینی بنانے کے لیے مختلف زاویوں سے تبادلہ خیال کیا۔

مشیر قومی سلامتی کا کابل میں استقبال

قبل ازیں مشیر برائے قومی سلامتی (این ایس اے) معید یوسف کی زیر قیادت اعلیٰ سطح کا بین الوزارتی وفد دوطرفہ معاملات، مشترکہ مفادات اور افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے پاکستان کے اقدامات پر گفتگو کرنے کابل پہنچے تھے۔

حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر معید یوسف اور ان کے وفد کا استقبال قائم مقام وزیر تجارت و صنعت نور الدین عزیزی نے کیا۔

پاکستانی سفارت خانے کے مطابق اس موقع پر وفد کے ہمراہ نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بھی موجود تھے۔

افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ دورے کے آغاز میں مشیر قومی سلامتی نے افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی سے ’نتیجہ خیز‘ ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کےخلاف استعمال ہورہی ہے، معید یوسف

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ معید یوسف انسانی و اقتصادی تعلقات میں مضبوطی کے لیے متعدد ملاقاتیں کریں گے۔

یاد رہے معید یوسف نے 18 جنوری کو دو روزہ دورے پر کابل پہنچنا تھا تاہم خراب موسم کے باعث ان کا دورہ ملتوی کردیا گیا تھا۔

وہ افغانستان بین الوزارتی تعاون سیل (اے آئی سی سی) کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی پابندیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت کی مدد کی جائے اور انہیں پاکستان سے انسانی و معاشی امداد بھیجی جائے جس سے وہاں موجود کلیدی چیلنجز سے نمٹا جاسکے گا۔

متعلقہ وزارتوں کے مطابق دورے کا مقصد انسانی اور معاشی سمیت مختلف شعبہ جات میں ترقیاتی ضروریات کا جائزہ لینا ہے، گزشتہ چند ہفتوں سے اے آئی سی سی افغانستان کو امداد پہنچانے کے منصوبے پر انتھک محنت کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، معید یوسف

اس سے قبل افغانستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’بختار نیوز‘ نے رپورٹ دی تھی کہ کابل کے سرکاری دورے کے دوران پاکستان کے مشیر برائے سلامتی، اسلامی امارات افغانستان (آئی ای اے) سے سرحد کے مسائل اور تجارتی و اقتصادی تعلقات پر گفتگو کریں گے۔

پاکستان کی جانب سے جن اہم شعبوں میں افغانستان کی مدد کی جائے گی ان میں صحت، اعلیٰ تعلیم، انسانی امداد اور تجارتی اور کاروباری تعلقات میں اضافے جیسے شعبہ جات شامل ہیں۔

افغانستان کے صحت، تعلیم، فنانس اور تجارت کے وزرا نے مذکورہ شعبہ جات میں پاکستان کے تعاون بڑھانے کے لیے حالیہ مہینوں میں ہی اسلام آباد کا دورہ کیا تھا، امکان ہے کہ مشیر سلامتی کے دورے کے بعد مذکورہ شعبہ جات میں امداد کے لیے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

افغانستان کے طالبان حکمرانوں کےلیے اہم چیلنج ملک کے انسانی وسائل سے صلاحیتیں ابھارنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا کو آگے بڑھنا چاہیے اور افغانستان میں مل کر کام کرنا چاہیے، معید یوسف

اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کے افغانستان کو ’قابل اور تربیت یافتہ افرادی قوت برآمد کرنے‘ کے حوالے سے حالیہ بیان کو غلط سمجھتے ہوئے افغان سوشل میڈیا پر شدید ردعمل نے جنم لیا ہے۔

متعلقہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان درحقیقت یہاں موجود تعلیم و تربیت یافتہ افغان مہاجرین کے لیے مواقع پر غور کر رہا ہے تاکہ وہ افغانستان کے سرکاری اور نجی شعبوں میں خدمات انجام دیں اور ملک میں انسانی وسائل کی ضروریات میں خلا کو پُر کیا جاسکے۔

دوطرفہ تعلقات کے علاوہ پاکستان بین الاقوامی تنظیموں بالخصوص اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ذریعے بھی افغانستان کو مدد فراہم کر رہا ہے۔

19 دسمبر 2021 کو اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس ہوا تھا جس میں او آئی سی ٹرسٹ فنڈ کے قیام کے ساتھ ساتھ انسانی اور اقتصادی مصروفیات کی نگرانی کے لیے افغانستان کے لیے ایک خصوصی ایلچی مقرر کرنے کے فیصلہ کیا گیا تھا، جو اس اہم موقع پر افغانستان کی مدد کے لیے اسلام آباد کی کوششوں کے عکاسی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں ‘جبری قبضہ’ قبول نہیں کریں گے، معید یوسف

پاک افغان سرحدی تنازع

معید یوسف نے ایک ایسے وقت میں کابل کا سفر کیا جب پاک ۔ افغان سرحد پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں مبینہ طور پر طالبان جنگجوؤں کو پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ کے ایک حصے کو اکھاڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا، اور ان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ باڑ افغان سرزمین کے اندر لگائی گئی ہے۔

مذکورہ معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ سرحد پر باڑ لگانے کا کام پڑوسی ملک کی رضامندی سے مکمل کیا جائے گا کیونکہ ’وہ ہمارے بھائی ہیں‘۔

تاہم پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ پاک ۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام منصوبہ بندی کے مطابق جاری رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ باڑ لگاتے ہوئے شہید فوجیوں کا خون بہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک۔افغان سرحد پر باڑ کے تنازع کو ’سفارتی ذرائع‘ سے حل کریں گے، طالبان

معید یوسف کے دورے کو دونوں فریقین کے لیے تقریباً 2 ہزار 600 کلومیٹر طویل سرحد اور دیگر سیکیورٹی سے متعلق امور کا جائزہ لینے کا ایک موقع بھی سمجھا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ معید یوسف نے حال ہی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے اور سرحد پر باڑ لگانے کے حالیہ مسائل ان کی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ معید یوسف، افغان طالبان کے ساتھ ملک کے کچھ حصوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں اضافے کے معاملے پر بات کریں گے، اس گروپ کی جانب سے گزشتہ ماہ جنگ بندی میں توسیع سے انکار کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں