سیاسی مصلحت حریفوں کو لاہور لے آئی، سیاسی مخالفین کی اہم ملاقاتیں

09 فروری 2022
لاہور میں حکمراں اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو—آصف علی  / وائٹ اسٹار
لاہور میں حکمراں اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو—آصف علی / وائٹ اسٹار

اپوزیشن کی بڑی جماعتیں متحد ہو کر یا انفرادی طور پر آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں یا تو تحریک عدم اعتماد یا سڑکوں پر مظاہروں یا دونوں چیزوں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں، حالیہ سیاسی ملاقاتوں، اعلانات سے پاکستانی سیاست کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں اور اندازے لگائے جا رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) کی اعلیٰ قیادت نے لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ملاقات کی اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کے لیے پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان قریبی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

اس کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے رہنماؤں نے بھی لاہور کا دورہ کیا، اس پیش رفت نے موجودہ سیاسی نظام کے مستقبل کے بارے میں کئی قیاس آرائیوں کو ہوا دی اور ملک کی موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم کے پاس زیادہ وقت نہیں،حکومتی حلیف کے بجائے پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا، شہباز شریف

ایک سیاسی تجزیہ نگار نے شناخت ظاہر نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا اگر سیاست ممکنات کا فن ہے تو پاکستانی سیاست دان اسے ایسا دکھاتے ہیں کہ یا تو ان کے پاس بہت کم امکانات ہیں یا بہت زیادہ امکانات ہیں، موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کے پاس بہت زیادہ امکانات ہیں۔

ان کے مطابق ہر سیاسی جماعت اور رہنما اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے لیے اس وقت کیا کیا ممکن ہے، اور مخالفین کے لیے امکانات کو محدود کریں۔

سیاسی تجزیہ نگار کا مزید کہنا تھا کہ دیکھیں کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ملاقات کر کے ممکنات کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس کی حکمران اتحادی پارٹی پی ٹی آئی کی سیاسی دشمن ہے، ایم کیو ایم نے ایک اور بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے خلاف اس کے احتجاج کی حمایت کرنے پر مسلم لیگ (ن) کا شکریہ ادا کیا۔

یہ تمام صورتحال اور پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آرہی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے اپنے درمیان موجود نفرتوں کو ختم کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کے خاتمے کیلئے قانونی، آئینی حکمت عملی اپنائیں گے، مسلم لیگ(ن)، پی پی پی کا اتفاق

اس تمام صورتحال میں صرف ایم کیو ایم ہی پی ٹی آئی کی واحد اتحادی جماعت نہیں ہے جو اس صورتحال میں متحرک ہے اور صورتحال میں اپنے لیے نئے امکانات تلاش کررہی ہے، بلکہ پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل ق) بھی ایم کیو ایم کی طرح کچھ کیے بغیر پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کے ساتھ رابطے میں ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر اور سی ای او پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ حکومت کے اتحادی مسلسل پی ٹی آئی کی جانب سے بہتر ڈیل کی تلاش میں ہیں، وہ کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے جس سے انہیں اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے میں مدد ملے۔

عمران خان کی حکومت پر عدالتوں، صحافتی اداروں پر دباؤ ڈالنے اور معیشت کو برباد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں کہتی ہیں کہ وہ اس غیر منتخب حکومت کو اقتدار سے باہر پھینکنا چاہتی ہیں،۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان جو انسداد بدعنوانی کے نعرے پر اقتدار میں آئے، کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی اس مہم کا مقصد اپوزیشن لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے کے لیے انہیں بلیک میل کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر حکومت سے باہر نکل آیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا، وزیراعظم

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اپوزیشن کے پاس اپنی معزولی کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا، عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بہت سخت رویہ اپنایا، انہیں ڈاکو اور بدعنوان قرار دیا ، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور آئی بی جیسی ایجنسیاں لگا کر ان کی زندگی مشکل کی۔

چنانچہ اپوزیشن اب اس مؤقف پر کھڑی نظر آتی ہے کہ اسے اب اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی، اور اسی لیے اب اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈالنے اور اسے ہٹانے کے لیے متحرک ہو گئی ہے۔

ڈان سے گفتگو کرنے والے سیاسی تجزیہ نگار نے احمد بلال محبوب سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے جانے کو ترجیح دیں گی، لیکن مرکزی سطح پر سیاسی نظام کے مکمل طور پر خاتمے سے پیدا ہونے والی (انتخابی اور قانونی) پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیراعظم کے عہدے پر متفق ہوجائیں گی۔

سیاسی تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بغاوت پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، کیونکہ اس میں موجود سیاستدانوں کو مسلم لیگ ن اور پی پی پی سے الگ کرانے میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی مدد کی تھی، ان سیاست دانوں کو بس ایک اشارے کی ضرورت ہے اور وہ وقت ضائع کیے بغیر اپنا رخ بدل لیں گے۔

مزید پڑھیں:ایم کیوایم، اے این پی ماضی کی غلطیاں بھلانے کو تیار

وزیراعظم عمران خان اور ان کی انتظامیہ کے خلاف اپوزیشن کے حالیہ اتحاد کو وسیع تر کرنے کی کوششوں میں اضافے نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ نئے انٹیلی جنس چیف کی تعیناتی پر وزیر اعظم اور ملٹری قیادت کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی نے عمران کی قیادت میں موجود نظام کو کمزور کیا ہو۔

7 جنوری کو وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے ابھی تک چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ ان کی دوسری مدت ختم ہونے میں ابھی وقت ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیانات نے آرمی چیف کے ساتھ ان کے خراب تعلقات سے متعلق قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔

اس بیان کے قریباً دو ہفتے بعد وزیر اعظم نے ایک اور بیان دی اتھا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ حکومت سے بے دخل کیے گئے تو وہ ملک کے وزیر اعظم کے مقابلے میں اور زیادہ خطرناک مخالف ثابت ہوں گے۔

کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان اپنی مدت پوری کریں گے کیونکہ اگر انہیں ابھی اقتدار سے الگ کیا گیا تو وہ سیاسی شہید بن جائیں گےاس لیے ابھی نہیں لگتا کہ وہ بے دخل کیے جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق فی الحال کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتوں کی عمران خان کو گرانے کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں