ہجوم سے خوفزدہ نہیں ہوئی، خدا کو یاد کیا، مسکان خان

10 فروری 2022
مسکان خان نےہجوم کے سامنے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے—اسکرین شاٹ
مسکان خان نےہجوم کے سامنے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے—اسکرین شاٹ

بھارت کی ریاست کرناٹک میں حجاب کے ساتھ اسکول پہنچنے پر انتہاپسند ہندو ہجوم کا سامنا کرکے ’آئیکون‘ بننے والی لڑکی مسکان خان نے کہا ہے کہ جب انہوں نے ہجوم کا سامنا کیا، تب وہ خوف زدہ نہیں ہوئیں اور خدا کو یاد کرنے پر انہیں طاقت ملی۔

مسکان خان کو دو دن قبل کرناٹک کے شہر علاقے منڈیا میں حجاب کے ساتھ کالج آنے پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکن لڑکوں کے ہجوم نے گھیرے میں لے کر انہیں ہراساں کیا تھا اور ان کے سامنے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے تھے۔

لڑکوں کے ہجوم نے باحجاب مسلمان لڑکی کو گھیرنے کی کوشش بھی کی مگر بہادر لڑکی نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑکوں کے جواب میں اسلامی نعرے لگائے تھے۔

مسکان خان نے ’جے شری رام‘ کے بدلے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے اور اپنی بہادری کی وجہ سے وہ دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: باحجاب مسلمان لڑکی 'ہندوتوا' حامیوں کے سامنے ڈٹ گئی

مذکورہ واقعے کے بعد جہاں پاکستانی عوام، شوبز شخصیات اور سیاستدانوں نے مسلمان لڑکی کی حمایت کی، وہیں خود بھارت کی شوبز شخصیات، سیاستدانوں اور عام افراد نے بھی ہندو طلبہ کے کردار کی مذمت کی۔

واقعے کے بعد مسکان خان نے ترک خبر رساں ادارے ’اناطولو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہجوم کو دیکھ کر نہیں ڈری تھیں بلکہ ایسا ہونے پر انہوں نے خدا کو یاد کیا تو ان میں مزید طاقت آگئی۔

مسکان خان کے مطابق جب بھی مسلمان مشکل صورت حال میں ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرنے سے ان میں ہمت و طاقت آتی ہے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہجوم کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے۔

ایک سوال کے جواب میں مسکان خان نے کہا کہ ہجوم کے سامنے ڈٹ جانے پر انہیں بھارت سمیت دنیا بھر سے محبت اور حمایت مل رہی ہے، جس سے ان کی ہمت مزید بڑھ گئی۔

انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کا آئین پردے یا حجاب کے خلاف نہیں ہے، وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، وہ ہمت نہیں ہاریں گی۔

مزید پڑھیں: حجاب پر پابندی کے خلاف بھارت کی مزید ریاستوں میں احتجاج

مسکان خان نے حب الوطنی کا مظاہرہ بھی کیا اور بھارتی آئین کو عظیم بھی قرار دیا اور کہا کہ ان کے کچھ بھائی بھٹک گئے ہیں لیکن انہیں امید ہے کہ وہ راہ راست پر آ جائیں گے۔

مسکان خان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کالج کے پرنسپل سمیت دیگر عملے نے ان کا ساتھ دیا ہے اور وہ بھارت بھر سے ملنے والی حمایت پر بھی خوش ہیں۔

—فوٹو:رائٹرز
—فوٹو:رائٹرز

خیال رہے کہ 25 کروڑ سے زائد مسلمان آبادی رکھنے والے ملک بھارت میں گزشتہ چند ماہ سے حجاب اور پردے پر تنازع جاری ہے اور ریاست کرناٹک کے بعض تعلیمی اداروں نے حجاب کے ساتھ اسکول و کالج آنے پر مسلمان لڑکیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

کرناٹک کے علاوہ دیگر ریاستوں کے تعلیمی اداروں نے بھی ایسی پابندی لگا رکھی ہے جب کہ بھارت بھر میں اس پر زبردست بحث و تنازع جاری ہے۔

جہاں مسلمان حجاب اور پردے کی حق میں ریلیاں اور مظاہرے نکالتے دکھائی دیتے ہیں، وہیں انتہاپسند ہندو پردے پر پابندی کے مطالبات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ریاست کرناٹک میں مسلمانوں نے حجاب یا پردے پر پابندی لگانے کے معاملے پر ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں،جنہیں بھارت کی سپریم کورٹ منتقل کردیا گیا ہے اور اگلے کچھ دنوں میں مذکورہ معاملے پر عدالتی کارروائی کے آغاز کا امکان بھی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مسلمان خواتین پردہ کرتی ہیں، وہیں ہندو مذہب کے پیروکاروں کی بعض برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی سخت پردے کا اہتمام کرتی ہیں مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔

بھارت میں حجاب کے معاملے پر تنازع جاری ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
بھارت میں حجاب کے معاملے پر تنازع جاری ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

تبصرے (0) بند ہیں