بھارت:کرناٹکا میں ایک اور کالج میں باحجاب طالبات کا داخلہ بند

اپ ڈیٹ 05 فروری 2022
پرنسپل نے کہا کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی کے احکامات پر عمل کر رہا ہوں—فوٹو: بشکریہ دی وائر
پرنسپل نے کہا کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی کے احکامات پر عمل کر رہا ہوں—فوٹو: بشکریہ دی وائر

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکا میں طالبات کو کالجوں میں حجاب سے روکنے کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے جہاں ایک اور کالج میں مسلمان طالبات کو حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کرناٹکا کے ضلع اڈوپی کے ساحلی علاقے کنڈاپور میں 27 طالبات کو سرکاری کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت: حجاب نہ اتارنے پر کالج طالبات کے کلاس میں بیٹھنے پر پابندی

سوشل میڈیا میں اس کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باحجاب طالبات کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ 100 سے زائد طالبات کی جانب سے زعفرانی چادریں اوڑھنے کے بعد کیا گیا، جو ہندو مذہب کا نشان ہے اور مذکورہ طالبات نے بھنڈارکر کالج میں مسلمان طالبات کے باحجاب ہونے پر احتجاج کیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ جب پرنسپل نے طالبات سے حجاب اتار کر کلاس میں آنے کی بات کی تو طالبات کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ حکومت نے کنڈاپور کی سرکاری کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا کوئی حکم نہیں دیا۔

کالج کے پرنسپل راماکرشنا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے صدر اور بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پالیمنٹ ہالاڈی سرینیواس شیٹھی کے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔

پرنسپل نے بتایا کہ شیٹھی نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ مخصوص یونیفارم کے علاوہ کسی اور اضافی چیز پہننے کی اجازت نہ دیں۔

دوسری جانب شیٹھی نے اخبار دی ہندو کو بتایا کہ انہوں نے طالبات کے والدین سے ملاقات اور انہیں اپنے بچوں کے لیے موجودہ ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کے لیے کہا، جیسا کہ یونیفارم پہننا، جب تک متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں برقع پر پابندی کا مطالبہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، اسدالدین اویسی

انہوں نے کہا کہ چند طالبات کالج میں کئی روز سے حجاب پہن کر کلاسز لے رہی ہیں اور دیگر طالبات کو اس پر شکایات ہے اور انہوں نے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صورت حال خراب ہورہی تھی اور جب کالج میں لڑکوں کو چادریں اوڑھے دکھا گیا تو میں نے بدھ کو والدین کا اجلاس طلب کیا۔

انہوں نے کہا کہ حجاب پہن کر کالج آنے والی طالبات کے والدین سے بھی بات کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے اپنے مذہب پر اپنے گھروں میں عمل کرنے اور اس کو کمرہ جماعت تک لے کر نہیں جانے کی بات کی اور واضح کیا کہ کمرہ جماعت میں حجاب یا زعفرانی رنگ کی چادریں نہیں ہوں گی اور طلبہ کو مخصوص کیا ہوا یونیفارم پہننا ہوگا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق کنڈاپور کے تعلیمی اداروں میں گزشتہ برس 28 دسمبر کے بعد مذہبی عدم برداشت کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔

یاد رہے کہ 28 دسمبر 2021 کو کرناٹکا کی گورنمنٹ خواتین پی یو کالج کی 6 طالبات کو حجاب کرنے پر داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد بھنڈارکر کالج میں تازہ واقعہ پیش آنے تک دیگر دو کالجوں میں بھی حجاب کے خلاف احتجاج کیا گیا، ایک اسکول کے پرنسپل کو طلبہ کی جانب سے مبینہ طور پر جمعہ کی نماز ادا کرنے پر معطل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں برقع سے قبل گھونگھٹ پر پابندی لگائی جائے، جاوید اختر

بتایا گیا کہ طالبات کو حجاب کے بغیر کالج میں داخلے پر پابندی کے واقعات کرناٹکا کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پیش آئے ہیں۔

دوسری جانب جن طالبات کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی انہوں نے کئی دنوں تک احتجاج کیا اور ان میں سے 5 افراد نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے اور استدعا کی ہے کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے کی اجازت دی جائے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک اور طالبہ نے اسی طرح کی درخواست الگ سے دائر کی ہے، جو رپورٹ کے مطابق 8 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے۔

دونوں درخواست میں کالج کی انتظامیہ اور دیگر پر طالبات پر مذہبی شناخت چھوڑنے پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ مذہبی اور سماجی اور ثقافتی معاملہ ہے اور یہ معاملہ کالج کے قواعد اور تعلیم کے راستے میں حائل نہیں ہوتا۔

ریاست کے وزیر تعلیم نگیش بی سی نے کالج انتظامیہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں زعفرافی چار اوڑھنے اور اسکارف پہننے جیسے دونوں اقدامات پر پابندی ہونی چاہیے۔

انہوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ حکومت جلد ہی کرناٹکا ہائی کورٹ میں اس حوالے سے اپنا مؤقف دے گی جہاں اگلے ہفتے دونوں درخواستوں کی سماعت ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں