بھارت: کرناٹک میں عدالتی فیصلہ آنے تک طالبات کے حجاب پر پابندی

اپ ڈیٹ 10 فروری 2022
عدالت نے حکم دیا کہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، طلبہ مذہبی لباس پر اصرار نہ کرے— فوٹو: اے پی
عدالت نے حکم دیا کہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، طلبہ مذہبی لباس پر اصرار نہ کرے— فوٹو: اے پی

بھارتی ریاست کرناٹک کی عدالت نے طالب علموں سے کہا کہ وہ حجاب اور اسکارف پر پابندی کے حوالے سے درخواستوں کا فیصلہ آنے تک کوئی بھی مذہبی لباس نہ پہنیں۔

ریاست کرناٹک میں متعدد اسکولوں کی جانب سے حجاب پر پابندی کو طالبات نے عدالت میں چیلنج کیا ہے اور عدالت ان کی درخواستوں کا جائزہ لے رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حجاب پر پابندی کے خلاف بھارت کی مزید ریاستوں میں احتجاج

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ ہم ایک حکم جاری کریں گے لیکن جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا، کوئی بھی طالب علم مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرے۔

دی وائر کے مطابق درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے عبوری حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے حقوق کی معطلی کے مترادف ہے لیکن عدالت نے کہا کہ یہ چند دنوں کا معاملہ ہے اور اس کے بعد سماعت ملتوی کردی۔

عدالت نے ریاست کو ان اسکولوں اور کالجوں کو دوبارہ کھولنے کی بھی ہدایت کی جنہیں وزیر اعلیٰ نے پابندی کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج کے سبب تین دن کے لیے بند کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب گزشتہ ماہ کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں ایک سرکاری اسکول نے حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جس کے بعد طالبات نے اسکول کے دروازے کے باہر احتجاج شروع کردیا تھا، ریاست کے مزید اسکولوں کی جانب سے اسی طرح کی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد عدالت مداخلت پر مجبور ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: باحجاب مسلمان لڑکی 'ہندوتوا' حامیوں کے سامنے ڈٹ گئی

اس ناخوش گوار معاملے پر مسلم طالبات خوف و ہراس کا شکار ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ہندو اکثریتی ملک میں انہیں ان کے مذہبی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور پیر کو اس پابندی کے خلاف سینکڑوں طلبہ اور والدین نے سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔

کرناٹک میں اس تنازع کے بعد بھارت کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج شروع ہو گیا تھا، جمعرات کو دارالحکومت نئی دہلی میں متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور حالیہ دنوں میں حیدرآباد اور کولکتہ سمیت دیگر شہروں میں بھی طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مارچ کیا تھا۔

گزشتہ روز کولکتہ میں سینکڑوں طلبہ نے پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی اور ساتھ ساتھ سڑکیں بھی بلاک کر دی تھیں۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ احتجاج کرنے والی طالبات میں زیادہ تر حجاب پہننے والی خواتین تھیں اور طلبہ نے جمعرات کو دوبارہ احجاج کا منصوبہ بنایا تھا۔

دریں اثنا کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی لباس جیسے سکھوں کی پگڑی، گلے میں صلیب یا ماتھے پر تلک پر پابندی لگانے کا کوئی قانون موجود نہیں، ان سب پر فرانس کے سرکاری اسکولوں میں پابندی ہے لیکن ہندوستان میں اس کی اجازت ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: حجاب نہ اتارنے پر کالج طالبات کے کلاس میں بیٹھنے پر پابندی

گزشتہ ہفتے کانگریس پارٹی کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے بھی پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے ٹوئٹ کی تھی کہ طالبات کے حجاب کو بنیاد پر ان کی تعلیم کی راہ میں حائل ہو کر ہم ہندوستان کی بیٹیوں کے مستقبل پر ڈاکا ڈال رہے ہیں۔

اس معاملے کو پاکستان میں بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کو ٹوئٹ کی تھی کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور صورت حال کو بالکل جابرانہ قرار دیا تھا۔

وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے اعلان کیا تھا کہ جمعے کا دن ہندوستان کی بیٹیوں کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت

نوبل امن انعام یافتہ اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی پابندی کی مذمت کی۔

24 سالہ ملالہ نے ٹوئٹ کی تھی کہ لڑکیوں کو حجاب پہن کر اسکول نہ آنے دینا خوف ناک ہے۔

مسلمان خواتین کی اکثریت کے لیے حجاب ان کے ایمان کا حصہ ہے البتہ چند مغربی ممالک خصوصاً فرانس میں کئی دہائیوں سے یہ معاملہ تنازع کا باعث رہا ہے جہاں 2004 میں سرکاری اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں