'پاسپورٹ ایکٹ میں شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق نہیں'

11 فروری 2022
جج نے واضح کیا کہ درخواست گزاروں کو مجاز اتھارٹی کے بغیر بلیک لسٹ کیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز
جج نے واضح کیا کہ درخواست گزاروں کو مجاز اتھارٹی کے بغیر بلیک لسٹ کیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے پاسپورٹ اور ویزا مینوئل 2006 کے پیرا نمبر 51 کو ختم کر دیا ہے، جسے وفاقی حکومت شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974 میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں تھی۔

جج نے بلیک لسٹ کیے گئے 4 درخواست گزاروں کی درخواست منظوری کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کا سیکشن 8 وفاقی حکومت کو صرف پاسپورٹ منسوخ کرنے یا ضبط کرنے کا اختیار دیتا ہے جب کہ 'بلیک لسٹ' کرنا ایک علیحدہ تصور ہے اور اس کا الگ مفہوم ہے۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے دلیل دی کہ ملک کے اندر یا بیرون ملک سفر کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا اسحٰق ڈار کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ صرف ایک مراعت نہیں بلکہ بیرون ملک سفر کرنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے، مذکورہ حق کو بغیر کسی قانون سازی کے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

وکیل نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بلیک لسٹ کرنے کا اختیار جس مینوئل کے تحت استعمال کیا اس کا پیرا 51 آئین کے خلاف تھا اور ویسے بھی ایسی کوئی قانونی پابندی موجود نہیں تھی۔

21 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ سفر کا حق اب عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسل ڈکلئیریشن آف ہیومن رائٹس (1948) کا آرٹیکل 13 یہ واضح کرتا ہے کہ ہر ایک فرد کو ہر ریاست کی حدود میں نقل و حرکت اور رہائش کی آزادی اور اپنے ملک سمیت کسی بھی ملک سے جانے اور اپنے ملک واپس آنے کا حق حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: قواعد کے خلاف جاری کئے گئے پاسپورٹ منسوخ کئے جائیں، نثار

جج نے کہا کہ سفر کرنے اور بیرون ملک جانے کا حق زندگی اور آزادی کے بنیادی حقوق کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس آزادی کو صرف عوامی مفاد میں بنائے گئے قانون کے تحت ہی محدود کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 15 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے لگائی جانے والی کوئی بھی پابندی نہ صرف معقول ہونی چاہیے بلکہ عوامی مفاد میں بھی ہونی چاہیے۔

جج نے مزید کہا کہ یہ واضح طور پر طے شدہ ہے کہ حکومت اپنے محکموں اور دفاتر کو ہموار انداز میں چلانے کے لیے اور خاص طور پر افسران کی ذمہ داریوں کو تشکیل دینے کے لیے ہدایات اور گائیڈ لائنز جاری کرنے کی اہل ہے جو کہ بہتر حکمرانی کے لئے ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ البتہ اس طرح کی ہدایات اور گائیڈلائنز آئین، قانون اور اس کے تحت تشکیل دیے گئے قواعد کے حوالے سے سخت نہیں ہونے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کا پاسپورٹ 16 فروری کو منسوخ کردیں گے، شیخ رشید احمد

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ مینوئل کا پیرا 51 پاسپورٹ ایکٹ کے اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا لہذا یہ گورننگ قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ ایکٹ کے سیکشن 8 میں صرف پاسپورٹ منسوخ کرنے اور ضبط کرنے کی بات کی گئی ہے اور بلیک لسٹ کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، جو کہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ رولز 1974 بھی اس معاملے پر خاموش ہیں، پیرا 51 پاسپورٹ ایکٹ کی قانون سازی کی پالیسی سے بالاتر اور دائرہ قانون سے باہر ہے۔

جج نے فیصلے میں لکھا کہ مینوئل کے پیرا 51 کے لیے ایسی کوئی قانونی پابندی موجود نہیں ہے، اس لیے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے جج نے واضح کیا کہ درخواست گزاروں کو مجاز اتھارٹی کے بغیر بلیک لسٹ کیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں