افغانستان کے صرف 5 ہسپتالوں میں کورونا وائرس کا علاج دستیاب

اپ ڈیٹ 11 فروری 2022
کابل کے ہسپتال میں کورونا وائرس کےمریضوں کے لیے 100 بیڈز ہیں— فوٹو: اے پی
کابل کے ہسپتال میں کورونا وائرس کےمریضوں کے لیے 100 بیڈز ہیں— فوٹو: اے پی

افغانستان کے صرف 5 ہسپتالوں میں اب بھی کورونا وائرس کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ دیگر 33 کو ڈاکٹروں، ہیٹرز اور ادویات کے فقدان کے باعث حالیہ مہینوں میں بند کیا جاچکا ہے۔

یہ حالات اس وقت سامنے آئے ہیں جب معاشی تباہی کے شکار ملک میں بڑی تعداد میں کورونا کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابل کے واحد کورونا وائرس کا علاج کرنے والے ہسپتال میں ایندھن کی کمی کے پیش نظر عملہ صرف رات کے وقت ہیٹر استعمال کرتا ہے جبکہ یہاں دن کے اوقات میں بھی خون جما دینے والی سردی ہوتی ہے، اس دوران مریض بھاری کمبلوں کا استعمال کرتے ہیں۔

مذکورہ ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد گل لیوال کا کہنا ہے کہ انہیں آکسیجن سے لے کر ادویات تک تمام چیزوں کی ضرورت ہے۔

افغان جاپان کمیونیکیبل ڈیزیز ہسپتال کے نام سے جانے والے اس ہسپتال میں 100 بستر ہیں جن میں سے زیادہ تر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث بھر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں کورونا وبا بےقابو ہونے لگی

ان کا کہنا تھا کہ جنوری کے اختتام سے قبل ہسپتال میں روزانہ کورونا وائرس کے 2 یا 3 نئے کیسز آرہے تھے تاہم گزشتہ دو ہفتوں سے 10 سے 12 مریض روزانہ ہسپتال میں داخل ہورہے ہیں۔

یخ بستہ کانفرنس روم میں بیٹھ کر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گل لیوال کا کہنا تھا کہ حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں، 6 ماہ قبل طالبان کے قبضے کے بعد سے ملازمین کو صرف دسمبر میں ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی ہے۔

افغانستان کا صحت کا نظام تقریباً 2 دہائیوں سے مکمل طور پر بین الاقوامی عطیہ کنندگان کی فنڈنگز پر چل رہا ہے، جو 20 سال بعد امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد تباہ حالی کا شکار ہے۔

تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک منجمد ہونے اور بڑے پیمانے پر مالیاتی امداد رک جانے کے بعد افغانستان کی معیشت بحران کا شکار ہوچکی ہے۔

صحت کا نظام زوال پذیر ہے جس سے ملک میں انسانی بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے، کم و بیش 90 فیصد افراد سطح غربت سے نیچے جا چکے ہیں، اور خاندان بمشکل ہی خوراک کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، کم از کم 10 لاکھ بچوں کی فاقہ کشی کا خطرہ ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں صرف ایک ہفتے کا طبی سامان اور سہولیات باقی ہیں، عالمی ادارہ صحت

ڈاکٹر گل لیوال کا کہنا ہےکہ اومیکرون ویرینٹ کے افغانستان کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن یہ صرف ان کا خیال ہے کیونکہ اس ویرینٹ کے خصوصی ٹیسٹ کے لیے ملک میں اب بھی کٹس کا انتظار کیا جارہا ہے۔

وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر جاوید حاضر نے کہا کہ ’اومیکرون ٹیسٹ کٹس کو گزشتہ ماہ کے اختتام تک آجانا چاہیے تھا‘ لیکن اب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے اختتام میں افغانستان کو کٹس فراہم کردی جائیں گی۔

ادارے کا کہنا ہے کہ 30 جنوری سے 5 فروری کے دوران افغانستان کی سرکاری لیبارٹریز میں کورونا وائرس کے لیے 8 ہزار 496 نمونے لیے گئے جن میں سے آدھے نمونوں کے مثبت نتائج موصول ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ افغانستان میں مثبت کیسز کی شرح 47.4 فیصد ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں دو سال قبل عالمی وبا کے آغاز سے اب تک 7ہزار 44 اموات ہو چکی ہیں جبکہ ایک لاکھ 67 ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں