میاں چنوں واقعہ: مقدمے میں نامزد مزید 6 مرکزی ملزمان سمیت 17 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 14 فروری 2022
اب تک مجموعی طور 102 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
اب تک مجموعی طور 102 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

میاں چنوں میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے مزید 6 مرکزی ملزمان سمیت 17 افراد کو گرفتار کرلیا۔

پنجاب پولیس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں نامزد مزید 6 مرکزی ملزمان کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے جس کے بعد گرفتار مرکزی ملزمان کی مجموعی تعداد 21 ہوچکی ہے۔

آج گرفتار ہونے والے ملزمان میں سدابہار، مطلوب، رفاقت، عنصر حسین ولد محمد نواز ، عنصر حسین اور محمد شفیق شامل ہیں۔

یاد رہے کہ افسوسناک واقعے کے مقدمے میں 33 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، تاہم اب تک مجموعی طور پر 102 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے قتل کے واقعات کو نہایت سختی سے کچلیں گے، وزیراعظم

پولیس نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کو شہریوں کو اشتعال دلاتے، اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری پر تشدد کرتے دیکھا گیا تھا، گرفتار ملزمان کے خلاف دہشت گردی اور سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے کا اندراج تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 353، 186، 148، 149 اور انسداد بد عنوانی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 اے کے تحت تشدد سے قتل کے تحت درج کیا گیا ہے۔

واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ دستیاب فوٹیجز اور شواہد کی مدد سے مزید ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کا عمل جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس ٹیمیں رات بھر چھاپے مارتی رہیں، جبکہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے خفیہ آپریشن بھی کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: میاں چنوں واقعہ: مقتول شخص 17 سال سے ذہنی بیمار تھے، بھائی کا دعویٰ

خیال رہے کہ واقعہ رواں ماہ 12 فروری کو پیش آیا تھا جب گاؤں جنگل ڈیرہ میں مغرب کی نماز کے بعد اس طرح کے اعلانات ہوئے کہ ایک شخص نے قرآن کے اوراق پھاڑ کر انہیں نذرِ آتش کردیا، اعلانات سن کر سیکڑوں مقامی افراد جمع ہوگئے۔

ملزم مبینہ طور پر بے قصور تھا تاہم کسی نے اس کی بات نہیں سنی اور اسے پہلے درخت سے لٹکایا اور پھر اینیٹیں مار مار کر قتل کردیا۔

ایک عینی شاہد کے مطابق پولیس ٹیم نے گاؤں پہنچ کر ملزم کو حراست میں لے لیا تھا لیکن ہجوم نے اسے ایس ایچ او کی حراست سے چھین لیا۔

مقتول کے بڑے بھائی نے بتایا تھا کہ مقتول 17 سے 18 سال سے ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ ماہ گاؤں واپس آنے سے پہلے تک کراچی میں دوسرے بھائی کے ساتھ رہ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:سیالکوٹ: توہین مذہب کے الزام پر ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کے بعد آگ لگادی

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ برسوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہے لیکن صحت یاب نہیں ہو سکے، مقتول کی بیوی نے اسی معاملے پر طلاق لے لی تھی جبکہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہے۔

مقتول کے بھائی نے مزید بتایا کہ گزشتہ روز وہ سگریٹ خریدنے گئے تھے، شام تک واپس نہیں آئے اور بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا ہے۔

واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے واقعے کےذمہ داروں اور فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے والے پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں