طالبات ہراسانی کیس: لاڑکانہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر عہدے سے برطرف

انیلہ عطا الرحمٰن کو 45 روز تک یا آئندہ احکامات تک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا—فائل فوٹو: اے پی
انیلہ عطا الرحمٰن کو 45 روز تک یا آئندہ احکامات تک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا—فائل فوٹو: اے پی

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ہدایت پر چانڈکا میڈیکل کالج کے ہاسٹلز میں 2 طالبات کی موت اور مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کردی گئی۔

اسی تناظر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (ایس ایم بی بی ایم یو) کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیلہ عطاالرحمٰن کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر حاکم علی ابڑو کو 45 روز یا آئندہ حکم تک قائم مقام وائس چانسلر کا چارج دے دیا گیا ہے، جبکہ انیلہ عطاالرحمٰن کو 45 روز تک یا آئندہ احکامات تک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں ہفتے کو جاری نوٹی فکیشن کے مطابق پروفیسر انیلہ رحمٰن کو ضرورت پڑنے پر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ 16 ستمبر 2019 کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں بی ڈی ایس کی ایک طالبہ نمرتا کماری اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیکل افسر ہراسانی کیس: سینئر افسران، یونیورسٹی حکام عدالت میں طلب

بعد ازاں اسی یونیورسٹی کے چانڈکا میڈیکل کالج کی ایک اور طالبہ نوشین شاہ 24 نومبر 2021 کو ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھیں۔

مذکورہ بالا دونوں اموات کی وجہ خودکشی بتائی گئی تھی، تاہم یہ معاملہ دوبارہ اس وقت منظرِ عام پر آیا کہ جب نواب شاہ میں ایک ہاؤس افسر پروین رند نے پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین کے 3 عہدیداروں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے غیر اخلاقی مطالبات نہ ماننے پر انہیں مار مار کر قتل کرنے کی کوشش کی۔

ہاؤس افسر نے دعویٰ کیا تھا کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے کبھی خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایک ویڈیو میں اپنے بازوؤں پر تشدد کے نشانات دکھائے اور کہا کہ مذکورہ عہدیدار انہیں اپنے غیر اخلاقی مطالبات ماننے پر مجبور کر رہے تھے اور انہوں نے مجھے بھی پہلے قتل کی گئی دوسری لڑکیوں کی طرح مارنے کی کوشش کی۔

دوسری جانب یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ایک پریس ریلیز میں پروین رند کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

رجسٹرار نے کہا تھا کہ ان کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ اور ہاؤس افسران کو تقویض کمرے تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن پروین رند نے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونے سے انکار کر دیا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے طالبہ کی بلیک میل کیے جانے پر خودکشی کا نوٹس لے لیا

وائس چانسلر کے میڈیا ٹرائل کی مذمت

اس ضمن میں سندھ کے مختلف اضلاع میں مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں طالبات کو ہراساں کرنے والے مشتبہ بلیک میلرز کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایس ایم بی بی ایم یو کی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فہد نے ادارے کی وائس چانسلر کے میڈیا ٹرائل کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر اور انتظامیہ نے نوشین کاظمی کی ڈی این اے رپورٹ لیک کی جس سے ادارے کی ساکھ پر منفی اثر پڑا۔

انہوں نے لیاقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اس کے فرانزیک ڈپارٹمنٹ کے اراکین کو جاری عدالتی انکوائری میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ورثا کو انصاف اور ذمہ داران کو مثالی سزا مل سکے۔

دوسری جانب لاڑکانہ کے فورتھ ایڈیشنل سیشن جج نے ایس ایم بی بی ایم یو کے ہاسٹل پرووسٹ اور سی ایم سی پرنسپل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 فروری کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ طلب کرلیا۔

تبصرے (0) بند ہیں