جامعات، پولیس ہراسانی میں ملوث لوگوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں، متاثرین

17 فروری 2022
ہاؤس افسر پروین رند کا دعویٰ ہے کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے — فائل فوٹو: اے پی
ہاؤس افسر پروین رند کا دعویٰ ہے کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے — فائل فوٹو: اے پی

ہراساں کیے جانے والی ہاؤس افسر پروین رند اور الماس بیہان نے شکایت کی ہے کہ پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، نوابشاہ اور سندھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ متعلقہ پولیس نے بھی ان پر تشدد کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

متاثرہ خواتین نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم اور متعلقہ حکام سے انہیں انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ خواتین حیدر آباد میں ایس یو اور سندھ کے دیگر تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے بڑھتے واقعات کے خلاف صحافیوں، لکھاریوں، سول سوسائٹی فار ٹروتھ، پیس اینڈ جسٹس (جے ڈبلیو سی) کی جانب سے نکالی گئی ریلی سے خطاب کر رہی تھیں، ریلی ایس یو میں ماروی گرلز ہاسٹل کے باہر مظاہرے کے بعد ختم ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رند کیس: پولیس کو تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 15 دن کی مہلت

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الماس بیہان کا کہنا تھا کہ انہیں انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ایس یو انتظامیہ نے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی، ان کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایت درج کرانے کے بعد بھی انہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی کے نام پر انہیں ڈرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اغوا کی کوشش کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، وہ خود کو اتنا غیر محفوظ محسوس کر رہی تھیں کہ انہیں اپنی تعلیم ہمیشہ کے لیے چھوڑنی پڑی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وائس چانسلر سمیت یونیورسٹی کے کسی بھی اہلکار نے ان سے رابطہ کیا اور نہ ہی ان کی شکایت دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

الماس بیہان نے الزام لگایا کہ میرے متاثرہ فرد ہونے کے باوجود پولیس نے میرے ہی گھر پر چھاپہ مار کر مجھے ڈرایا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات دیہی علاقوں کے چند والدین کی حوصلہ شکنی کر رہے تھے جنہوں نے اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی۔

مزید پڑھیں: خاتون ہاؤس افسر کا یونیورسٹی اہلکاروں پر ہراسانی، قتل کی کوشش کا الزام

نواب شاہ کے پی یو ایم ایچ ایس کے نرسنگ اسکول کی ہاؤس افسر پروین رند نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا وہ خاموش نہیں رہیں گی، ان کا کہنا تھا کہ وہ ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں گی۔

پروین رند نے الزام لگایا تھا کہ جب انہوں نے یونیورسٹی کے تین اہلکاروں کے غیر اخلاقی احکامات پر عمل کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے چند روز قبل انہیں ان کے ہاسٹل کے کمرے میں مارنے کی کوشش کی۔

انہون نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن نے ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی بلکہ درحقیقت وہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی حمایت کر رہے تھے، ان کہنا تھا کہ نواب شاہ انتظامیہ اور پولیس بھی مرکزی ملزم کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے طالبہ کی بلیک میل کیے جانے پر خودکشی کا نوٹس لے لیا

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی تھی اور پھر انہیں قتل کر دیا جاتا تھا اور ان کی موت کو خودکشی قرار دیا جاتا تھا، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا تھا لیکن انہوں نے بلیک میل ہونے سے انکار کردیا۔

پروین رند کا کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے کے واقعات سے متعلق بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹیاں بھی ناکام رہی ہیں، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ حکام پر زور دیا کہ وہ انہیں انصاف فراہم کریں۔

ڈاکٹر نیاز کالانی، پیرال مجیدانو، اظہار سومرو، ثمر جتوئی، یعقوب چانڈیو، ظفر ہاکرو اور دیگر نے ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے ان تمام واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا، انہوں نے نمرتا کماری اور نوشین کاظمی کے کیسوں کی بھی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ہراسانی سے متعلق مشاورتی پروگرام

مقامی پریس کلب میں منعقدہ مشاورتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکنوں نے غیرت کے نام پر قتل، طالبات کو ہراساں کرنے، خواتین کے خلاف تشدد، مختلف قبائل کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اور بااثر افراد کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج میں طالبہ کی پراسرار موت

سماجی کارکنان پروفیسر مشتاق میرانی، ذوالفقار ہالیپوتو اور علی پلا کا ہراساں کیے جانے کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت لڑکیوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کے ارکان کو بھی انکوائری کمیٹیوں میں شامل کیا جائے اور سائبر کرائم کے کیسز کی تحقیقات کے لیے ڈویژنل اور ضلعی سطح پر ایف آئی اے کے دفاتر قائم کیے جائیں۔

مقررین کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، وزیر اعلیٰ سیاسی جماعت کے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے ہیں، چیف سیکریٹری سے لے کر دیگر افسران تک کوئی بھی قانون نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں، جس کے باعث صوبے میں خواتین کو ہراساں کرنے، تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات، قبائلی قتل اور زمینوں پر قبضے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں