پنجاب کے 2 بڑے گرڈ اسٹیشنز میں نقائص کا انکشاف

21 فروری 2022
این ٹی ڈی سی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے سنگین مسائل کو مناسب طریقے سے نہیں اٹھایا جا رہا ہے—فائل فوٹو:ڈان
این ٹی ڈی سی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے سنگین مسائل کو مناسب طریقے سے نہیں اٹھایا جا رہا ہے—فائل فوٹو:ڈان

غیر معیاری مٹیریل اور آلات کے استعمال کے ایک اور کیس میں نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی ایک ٹیم کو 2 میگا پراجیکٹس کی تعمیر میں ناقص میٹریل اور آلات کے استعمال سے متعلق کئی تضادات ملے لیکن کمپنی انتظامیہ کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ٹیم نے 2 گرڈ اسٹیشنز کا دورہ کیا، ایک رحیم یار خان میں 500 کلو وولٹ اسٹیشن اور دوسرا لال سوہانرا (ضلع بہاولپور) میں 220 کلو وولٹ اسٹیشن جو چند سال قبل مکمل ہوا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ دورے میں ٹیم کو ناقص تعمیراتی مواد، ناکارہ سرکٹ بریکرز، آسیلوگراف سسٹم کی عدم موجودگی اور خراب حالت میں موجود ٹرانسفارمر وغیرہ جیسے مسائل کا پتا چلا۔

عہدیدار نے بتایا کہ اس کے باوجود این ٹی ڈی سی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے سنگین مسائل کو مناسب طریقے سے نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی بندش کی وجہ قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی خرابی تھی

این ٹی ڈی سی کے قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر نے فون کالز، میسجز اور ای میل کے ذریعے ان کا نقطہ نظر جاننے کی کوششوں کے باوجود اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

گزشتہ ہفتے این ٹی ڈی سی کے اثاثہ جات انتظامی یونٹ (شمالی) کو فراہم کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ٹیم نے 9 فروری کو رحیم یار خان گرڈ کا معائنہ کیا اور کمپنی کے اضافی ہائی وولٹیج-II اور کنسلٹنٹس ڈیپارٹمنٹ کی زیر نگرانی ٹھیکیدار کی جانب سے سنگین غفلت پائی گئی۔

اسی صورت حال کے بارے میں اعلیٰ حکام کو پہلے ہی کئی خطوط کے ذریعے آگاہ کیا جاچکا تھا لیکن 3 فروری 2018 کو گرڈ فعال کرنے کے بعد بھی کوئی فوری کارروائی نہیں کی گئی۔

رحیم یار خان کے دورے کے دوران ٹیم کو گرڈ سٹیشن کی ایک باؤنڈری وال خستہ حالت میں ملی، سرکٹ بریکر کی کانٹیکٹ ریززسٹنس میں اضافہ پایا گیا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے جس سے کرنٹ کا بہاؤ متاثر اور ٹرپنگ ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: مٹیاری لائن کے کام پر اعتراضات کرنے والے افسران پر این ٹی ڈی سی برہم

اس کے علاوہ سرکٹ بریکرز اور آئسولیٹروں کا ناقص ڈیزائن یا اس میں اٹھان پائی گئی، جس سے شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی وقت کھمبے اور قریبی آلات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ٹیم کو پتا چلا کہ آسیلوگراف سسٹم کو ابھی تک انسٹال ہونا باقی ہے، یہ ایک آلہ ہے جو مختلف برقی مقداروں (مثلاً کرنٹ اور وولٹیج) کے وقت کی نشاندہی اور ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

رہائشی کالونی اور ریسٹ ہاؤسز کے سول ورکس میں ناقص میٹریل کا استعمال، ایونٹ اور فالٹ ریکارڈرز کے کام نہ کرنے، پروٹیکشن اور کنٹرول پینلز کے منظور شدہ اسکیمیٹک ڈائیگرام کی عدم دستیابی بھی پائی گئی جو آلات کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

لال سوہانرا گرڈ سٹیشن کا دورہ کرتے ہوئے ٹیم کو واحد پاور ٹرانسفارمر کی خراب حالت، غیر معیاری ٹی اینڈ پی آلات اور رحیم یار خان گرڈ سے ملتے جلتے دیگر مسائل کا پتا چلا۔

یہ بھی پڑھیں: این ٹی ڈی سی کا سی پیک کے تحت ٹرانسمیشن لائن منصوبے میں خامیوں کا انکشاف

ٹیم نے کانٹریکٹرز کو بلیک لسٹ کرنے اور کنسلٹنٹس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔

یہ ایک باضابطہ دورہ تھا جس کی سربراہی سینئر عہدیداروں نے کی تھی جو کہ این ٹی ڈی سی کے محکموں کے درمیان ان میگا پراجیکٹس سے متعلق مختلف امور پر وسیع خط و کتابت کے نتیجے میں کیا گیا۔

ایک عہدیدار بتایا کہ 2018 میں ان گرڈ سٹیشنوں کی تکمیل کے بعد سے اب تک 39 خطوط اور یاد دہانیاں (15 رحیم یار خان اور 24 لال سوہانرا سٹیشن سے متعلق) لکھی جاچکی ہیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو کسی انکوائری کا حکم دیا گیا اور نہ ہی این ٹی ڈی سی آفس کے کسی عہدیدات نے ان پراجیکٹس کا دورہ کرنے اور مسائل کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی زحمت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں