اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا آرڈیننس کےخلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار

اپ ڈیٹ 25 فروری 2022
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیکا کے خلاف اصل اسٹیک ہولڈرز کی پہلے ہی درخواستیں ہم سن رہے ہیں — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیکا کے خلاف اصل اسٹیک ہولڈرز کی پہلے ہی درخواستیں ہم سن رہے ہیں — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پریوینشن آف الیکٹرک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے دی۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی کیا پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں؟

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس متبادل فورم پارلیمنٹ موجود ہے، عدالت ان کی درخواستیں سنتی ہے جن کے پاس متبادل فورم نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا پیکا آرڈیننس، اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعت چاہے تو آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس مسترد کر سکتی ہے، سیاسی جماعتیں مجلس شُوریٰ (پارلیمنٹ) کو زیادہ مضبوط بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیکا کے خلاف اصل اسٹیک ہولڈرز کی پہلے ہی درخواستیں ہم سن رہے ہیں، ہم اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو بھی سن چکے ہیں۔

اس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ ہم بھی اپنی گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ پارلیمنٹ میں بات کریں، مسلم لیگ (ن) حکومت میں رہ چکی ہے، حکومت میں ہوتے ہوئے سب یہی کرتے ہیں، جب حکومت میں ہوتے ہیں تو پہلے آرڈیننس لاتے ہیں پھر پارلیمنٹ کی منظوری لیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی پیکا آرڈیننس کےخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس پر مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ میں کردار ادا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اصول کی بنیاد پر ہم سیاسی جماعت کی درخواست نہیں سن رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اصل اسٹیک ہولڈرز کو سن رہے ہیں، آپ کو محض علامتی طور پر نہیں سکتے۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے آرڈیننس کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سماعت بھی زیر التوا ہونے کا حوالہ دیا، جس پر عدالت نے کہا کہ اس درخواست پر بھی اعتراض لگا ہے، یقین دلاتے ہیں انہیں بھی نہیں سنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج

عدالت نے کہا کہ پیپلز پارٹی، آرڈیننس چیلنج کر کے درخواست کی پیروی ہی نہ کر سکی، اسلام ہائی کورٹ میں 2 بار کیس کال ہونے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی درخواست پہلے ہی زیر سماعت ہے۔

پیکا آرڈیننس کیا ہے؟

واضح رہے کہ اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔

شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا سرپرست ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔

اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ مقدمہ جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو وہ رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔

یاد رہے کہ پیکا، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں