افغانستان: کابل یونیورسٹی میں طلبہ کی پابندیوں کے ساتھ واپسی

26 فروری 2022
طالبات نے یونیورسٹی میں واپسی پر خوشی کا اظہار کیا—فوٹو: اے پی
طالبات نے یونیورسٹی میں واپسی پر خوشی کا اظہار کیا—فوٹو: اے پی

افغانستان کی سب سے پرانی اور معروف درسگاہ کابل یونیورسٹی طالبان کے قبضے کے 6 ہفتوں کے طویل عرصے بعد ہفتے کو دوبارہ کھل گئے تاہم طلبہ کے لیے نئے قواعد نافذ کردیے گئے ہیں۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق حجاب لیے درجنوں طالبات یونیورسٹی کے دروازے کے باہر قطار میں کھڑی تھیں جو گزشتہ برس اگست میں طالبان کی واپسی کے بعد معطل ہونے والی کلاسز کی بحالی پر خوش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: طالبان نے مارچ میں تمام لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا عندیہ دے دیا

کابل یونیورسٹی کے تین دروازوں پر طالبان کے گارڈز کھڑے تھے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتےتھے کہ کیا متوقع ہے لیکن حیرانی ہوئی تھی کہ وہ اپنی کلاسیں بحال کرسکتے ہیں اور اپنی مرضی کے شعبے میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔

کابل یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر امریکا کے لبرل آرٹس ماڈل کی پیروی کی جاتی تھی۔

یونیورسٹی آنے والے طلبہ نے کہا کہ صرف موسیقی کی کلاسیں طلبہ و طالبات دونوں کے لیے معطل کردی گئی ہیں تاہم طالبان نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

یونیورسٹی میں شعبہ بشریات کی 21 سالہ طالبہ بہیجہ امان کا کہنا تھا کہ ‘سلیبس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور میری کلاس میں اساتذہ بھی وہی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں خوش ہوں کہ انہوں نے بالآخر ہمیں واپس یونیورسٹی آنے کی اجازت دے دی ہے’۔

مزید پڑھیں: یونیسیف کا افغان اساتذہ کو 2 ماہ کیلئے وظیفہ ادا کرنے کا اعلان

اپنی کلاس میں اول رہنے والی طالبہ کو امید ہے وہ گریجویشن مکمل کرلیں گی اور افغانستان میں ہی اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کرپائیں گی۔

کابل یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد 22 ہزار تک ہوا کرتی تھی تاہم پہلے روز طلبہ کی تعداد کم نظر آئی۔

طالبان کی حکومت اور میڈیا میں بھی ایسا کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی ہے اور یونیورسٹی کے آفیشل فیس بک پیچ میں رواں ہفتے بتایا گیا تھا کہ طلبہ ہفتے سے کلاسیں لے سکتے ہیں اور کلاسیں مذہبی اور کلچرل اقدار پر عمل کرتے ہوئے ہوں گی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح کابل یونیورسٹی بھی طالبان کے کنٹرول کے بعد بند ہوگئی تھیں جبکہ خواتین کو تعلیم کی اجازت ملے گی یا نہیں یہ معاملہ بھی زیر بحث رہا۔

طالبان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ وہ 1996 سے 2001 کے دوران اپنے پہلے دور حکومت کی طرح خواتین کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔

مزید پڑھیں:طالبان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت کا جلد اعلان کریں گے، یونیسیف

دوسری جانب طالبان نے واضح کیا تھا کہ انہیں خواتین کی تعلیم پر کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کلاسیں الگ ہونی چاہیے اور اسلامی اصولوں کی پاسداری ہونی چاہیے۔

افغانستان میں لیغام، ننگرہار، کندھار، نمروز، فراہ اور ہلمند میں جامعات رواں ماہ کے اوائل میں کھل گئی تھیں۔

طالبان کی جانب سے پابندی کا باقاعدہ اعلان نہ کرنے کے باوکود ساتویں جماعت اور اس سے اوپر کی کلاسوں کی طالبات افغانستان بھر میں اسکول جانے سے محروم ہیں۔

طالبان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لڑکیاں مارچ کے اوخر میں دوبارہ اسکول جاسکیں گی۔

عالمی برادری کا طالبان سے کیے جانے والے مطالبات میں سے ایک لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینا بھی شامل ہے جبکہ طالبان کا مؤقف ہے کہ اسکولوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کو الگ کلاسوں کی سہولت موجود نہیں ہے۔

کابل یونیورسٹی میں 6 ماہ بعد جب کلاسوں کا آغاز ہوا تو پابندیوں کے تحت طالبات کو الگ کیا گیا اور انہیں حجاب کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اطراف میں اسمارٹ فون لانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

طالبات کو صبح کی کلاسیں لینے اور طلبا کو دوپہر کی کلاسیں لینے کی پابندی لگائی گئی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں یونیورسٹی کی جانب سےمختلف آسامیوں کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں فنون، پبلک پالیسی، ادب، میڈیا اور کمیونیکیشنز اور سیاسیات کے شعبے میں شامل تھے۔

طالبہ بہیجہ امان نے پابندیوں کو معمولی رعایت قرار دیا اور کہا کہ ‘میں قانون کی بالادستی کی قائل ہوں، اس پر عمل کروں گی لیکن مجھے توقع ہے مزید تبدیلیاں نہیں ہوں گی’۔

تبصرے (0) بند ہیں