پاکستان اور آسٹریلیا 1956ء سے ایک دوسرے کے مدِمقابل بین الاقوامی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مجموعی طور پر ان مقابلوں میں آسٹریلیا کا پلڑا بھاری رہا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو 9 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ لیکن پاکستان نے آج تک آسٹریلوی سرزمین پر آسٹریلیا سے کوئی سیریز نہیں جیتی۔ اس کے برعکس پاکستان میں کھیلی جانے والی سیریز میں پاکستان کو آسٹریلیا پر برتری حاصل رہی ہے، لیکن آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کو پاکستان میں بھی شکست دیتی رہی ہے۔

ان دونوں ٹیموں کے مقابلے ہمیشہ سخت ہی رہے ہیں۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جب 24 سال قبل 1998ء میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو 3 میچوں کی سیریز 0-1 سے جیت کر گئی، اس کے علاوہ اس نے 3 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی سیریز میں بھی پاکستان کو شکست دی۔

1956ء میں آسٹریلوی ٹیم ایشز سیریز میں انگلینڈ سے بُری طرح ہار کر پاکستان آئی جہاں اس نے کراچی میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنا تھا جس میں پاکستان کو 9 وکٹوں سے فتح حاصل ہوئی۔

اس میچ میں کراچی کی میٹنگ وکٹ پر فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے آسٹریلوی کھلاڑی صرف 80 رنز پر آؤٹ ہوگئے۔ پاکستان نے جواب میں 199 رنز بنائے جس میں وزیر محمد نے 67 اور کپتان حفیظ کاردار نے 69 رنز اسکور کیے۔ فضل محمود نے میچ میں 12 وکٹیں لیں۔

اس میچ کے بعد آسٹریلوی ٹیم 1959ء میں رچی بینو کی قیادت میں پاکستان آئی۔ اس مرتبہ آسٹریلوی ٹیم ٹیسٹ سیریز جیت کر گئی۔ اس سیریز کی خاص بات یہ تھی کہ کراچی میں کھیلے جانے والے میچ کے چوتھے دن امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور بھی پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ یہ میچ دیکھنے آئے تھے۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 1959ء میں ڈھاکہ میں کھیلا جانے والا میچ—تصویر: اے پی
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 1959ء میں ڈھاکہ میں کھیلا جانے والا میچ—تصویر: اے پی

اس کے بعد 1964ء میں آسٹریلوی ٹیم ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے پاکستان آئی۔ کراچی میں کھیلا جانے والا یہ میچ ڈرا ہوا۔ اس میچ میں پاکستانی بلے باز خالد عباد اللہ نے 164 رنز بنائے اور قومی ٹیم کے سندھی بولنے والے پہلے کھلاڑی عبدالقادر بھی اس میچ میں شریک تھے جو 95 رنز اسکور کرکے رن آؤٹ ہوئے۔ اس میچ کی دونوں اننگز میں آسٹریلوی کپتان بوبی سمپسن نے سنچریاں اسکور کیں۔

کراچی ٹیسٹ کے دوران امریکی صدر آسٹریلوی ٹیم سے ملتے ہوئے
کراچی ٹیسٹ کے دوران امریکی صدر آسٹریلوی ٹیم سے ملتے ہوئے

1956ء اور 1959ء کے دونوں ٹیسٹ میں نے خود نیشنل اسٹیڈیم کی پہاڑیوں پر بیٹھ کر دیکھے تھے، میں اس وقت کالج کا طالب علم تھا اور تب اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے اسٹینڈ نہیں بنے تھے۔

آسٹریلیا میں کھیلے گئے پاک-آسٹریلیا میچ

یہ تو ہوا پاکستان میں کھیلے گئے ابتدائی پاک-آسٹریلیا کرکٹ میچوں کا ذکر، آئیے اب کچھ ذکر کرتے ہیں آسٹریلیا میں کھیلے گئے میچوں کا۔

پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کا پہلا دورہ 1964ء میں کیا۔ اس دورے میں ایک ہی ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا یہ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔

اس میچ کی خاص بات پاکستان کے کپتان حنیف محمد کی بیٹنگ تھی۔ انہوں نے پہلی اننگ میں ناقابلِ شکست 101 رنز اور دوسری اننگ میں 93 رنز اسکور کیے۔ دوسری اننگ میں انہیں غلط اسٹمپ آؤٹ دیا گیا اور وہ دوسری سنچری بنانے سے محروم رہے۔

پاک-آسٹریلیا کرکٹ مقابلوں میں ایک یادگار کارکردگی 79-1978ء کے دورے کے دوران پاکستانی فاسٹ باؤلر سرفراز نواز کی باؤلنگ بھی تھی۔ اس دورے میں میلبرن میں کھیلے گئے پہلے میچ میں انہوں نے پاکستان کو 71 رنز سے فتح دلوائی۔

اس پورے میچ میں انہوں نے 11 وکٹیں حاصل کیں، پہلی اننگ میں 2 وکٹیں اور دوسری اننگ میں 86 رنز دے کر 9 وکٹیں۔ میچ کے آخری دن جب آسٹریلیا کو جیت کے لیے 77 رنز درکار تھے تو سرفراز نواز نے صرف ایک رن دے کر آخری 7 وکٹیں حاصل کیں۔ اس میچ میں ماجد خان نے 108 اور آسٹریلوی کھلاڑی ایلن بارڈر نے 105 رنز بنائے۔

لیکن یہ ٹیسٹ کرکٹ میں آسٹریلوی سرزمین پر پاکستان کی پہلی فتح نہیں تھی۔ پاکستان نے آسٹریلوی سرزمین میں پہلی ٹیسٹ فتح 77-1976ء کی سیریز کے دوران حاصل کی تھی۔ اس دورے پر جانے والی پاکستانی ٹیم نے مشتاق محمد کی قیادت میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں تیسرا ٹیسٹ میچ جیت کر 3 میچوں کی سیریز برابر کردی تھی۔

اس ٹیسٹ کی خاص بات پاکستانی باؤلر عمران خان کی کامیاب باؤلنگ تھی۔ انہوں نے اس ٹیسٹ میں 12 وکٹیں لیں اور وہیں سے وہ کرکٹ اسٹار بن گئے۔ اس ٹیسٹ میں آصف اقبال نے بھی 120 رنز اسکور کیے تھے۔ یہ آسٹریلوی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی فتح تھی لیکن کئی برس بعد اور کئی سیریز کھیلنے کے بعد بھی پاکستان آسٹریلیا کے خلاف کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں جیت سکا۔

اس کے بعد سے قومی ٹیم متحدہ عرب امارات، سری لنکا اور انگلینڈ میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیل چکی ہے۔ پاکستان کو کئی وجوہات کی وجہ سے ان ممالک میں میچ کھیلنے پڑے جن میں ایک بڑی وجہ سیکیورٹی صورتحال بھی تھی۔

1998ء میں آسٹریلیا کا دورہ پاکستان

اب کچھ بات کرتے ہیں آسٹریلیا کے حالیہ دورہ پاکستان سے قبل ہونے والے آخری دورے کی۔ آسٹریلوی ٹیم نے 1998ء میں مارک ٹیلر کی کپتانی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یہ سیریز مہمان ٹیم نے 0-1 سے جیت لی تھی۔

گزشتہ ٹیسٹ سیریز کی طرح میں نے اس سیریز کو بھی کور کیا تھا۔ راولپنڈی میں ہونے والے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے ایک اننگز اور 99 رنز سے فتح حاصل کی تھی۔ اس میچ میں سعید انور نے 145، مائیکل سلیٹر نے 108 اور اسٹیو وا نے 157 رنز اسکور کیے جبکہ ڈیرن لیہمن 98 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

دوسرا ٹیسٹ پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم میں کھیلا گیا اور برابر رہا۔ اس میں آسٹریلیا کے کپتان مارک ٹیلر نے ٹرپل سنچری بناتے ہوئے 334 رنز اسکور کیے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ دوسری اننگ میں انہوں نے 92 رنز اسکور کیے۔ اس میچ میں جسٹن لینگر نے 116 اور رکی پونٹنگ نے 76 رنز اسکور کیے۔

پاکستان کی جانب سے اعجاز احمد نے 155 اور سعید انور نے 126 رنز بنائے۔ تاہم آسٹریلوی کپتان کی ٹرپل سنچری کے باعث یہ میچ ڈرا ہوگیا۔ جب آسٹریلوی کپتان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سر ڈان بریڈمین کا ریکارڈ عبور کرنے سے پہلے اپنی اننگ کیوں ڈکلیئر کردی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ بریڈمین کے 334 رنز کو عبور نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ بچپن سے ہی ان کی نظروں میں بریڈمین کی عزت رہی ہے۔

اس سیریز میں کراچی میں کھیلا جانے والا آخری میچ بھی برابر رہا۔ اس ٹیسٹ میچ میں شاہد آفریدی نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور 5 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ مارک وا اور مائیکل سلیٹر نے 96 رنز اسکور کیے جبکہ پاکستان کی جانب سے عامر سہیل نے 133، اعجاز احمد نے 120 اور گلین میگرا نے 5 وکٹیں لیں۔ اس دورے میں آسٹریلیا نے ٹیسٹ سیریز کے ساتھ تینوں ایک روزہ میچوں میں بھی فتح حاصل کی۔

یہ تھی 23 سال قبل ہونے والی آخری پاک آسٹریلیا سیریز کی روداد، اس کے بعد آسٹریلیا یا تو پاکستان کے ساتھ ہوم سیریز کھیلتا رہا یا پھر متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ میں میچ کھیلتا رہا۔

1998ء کی پاک آسٹریلیا سیریز کے کچھ دلچسپ واقعات

پشاور میں ہونے والے میچ میں ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔ مارک ٹیلر نے 334 رنز بنانے کے بعد اننگ ڈیکلیئر کی تو ایک پاکستانی صحافی نے یہ خبر دے دی کہ میچ سٹے کی نظر ہوگیا ہے۔ جبکہ حقیقتاً مارک ٹیلر نے ڈان بریڈمین کے احترام میں اننگ ڈکلیئر کی تھی۔

خبر لگنے کے بعد جب کراچی کا ٹیسٹ ہوا تو آسٹریلوی ٹیم کے منیجر غصے کا عالم میں پریس باکس میں آئے اور پاکستانی صحافی پر خوب آگ بگولا ہوئے۔ اب صحافی کے پاس ویسے بھی کوئی ثبوت تو تھا نہیں اس لیے وہ بے چارہ چپ چاپ سب کچھ سنتا رہا۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ پشاور کے ٹیسٹ میں ایک بھارتی شہری سچن بجاج بھی موجود تھا۔ سچن بجاج میرا دوست تھا، وہ کرکٹ پر 4، 5 کتابیں بھی لکھ چکا ہے تاہم پاکستانی صحافی کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا۔ دراصل جب دورہ پاکستان سے قبل آسٹریلیا نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو بھارتی کرکٹ بورڈ کی جانب سے سچن بجاج کو آسٹریلوی ٹیم کا لیئزن آفسر مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستانی صحافی سمجھا کہ یہ کوئی بکی ہے اور اس کی وجہ سے میچ میں سٹہ لگا ہے۔ یوں جو کچھ ہوا اس کے سبب کراچی اسٹیڈیم کے پریس باکس میں کافی ہنگامہ ہوگیا۔

اسی طرح پشاور کے میچ کے دوران میں اور جم میکس ویل کمنٹری کر رہے تھے کہ آسمان پر چیلیں اڑتی ہوئی نظر آئیں۔ انہیں دیکھ کر اس نے انگریزی میں کہا کہ کتنے خوبصورت پرندے ہیں، کیا زبردست پرواز ہے۔ اس پر میں نے فوراً کہا کہ ہاں بہت خوبصورت پرواز ہے لیکن پشاور سے جو سب سے اہم پرواز اڑی وہ امریکی جہاز یو 2 کی تھی جس پرواز کو روسیوں نے مار گرایا تھا۔ یہ سن کر جم میکس ویل نے فوراً کہا کہ ’ارے نہیں! کیا آپ اتنے پرانے ہیں؟‘ میں نے جواب دیا کہ ’جی ہاں میں اتنا ہی پرانا ہوں‘۔

پشاور ٹیسٹ میں آسٹریلوی کمنٹیٹر جم میکس ویل کے ہمراہ کمنٹری کرتے ہوئے—تصویر: فخر الزماں
پشاور ٹیسٹ میں آسٹریلوی کمنٹیٹر جم میکس ویل کے ہمراہ کمنٹری کرتے ہوئے—تصویر: فخر الزماں

پھر اس دوران غیر ملکیوں اور صحافیوں کو خیبر پاس جانا منع تھا اور انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن میں شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومت سے خصوصی اجازت لے کر تقریباً 12 غیر ملکی صحافیوں کو خیبر پاس لے گیا۔ وہاں فرنٹیئر فورس کی بہت بڑی میس ہے جہاں میری معرفت کی وجہ سے فرینٹیئر فورس نے ان غیر ملکی صحافیوں کے لیے اپنی میس میں دعوت بھی کی۔ لیکن دعوت تو ایک جانب وہاں موجود میوزیم دیکھ کر ہی صحافیوں کے ہوش اڑ گئے۔ بہرحال وہ ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔

اب آسٹریلوی ٹیم ایک بار پھر پاکستان میں موجود ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کی موجودہ ٹیموں میں پہلے کی طرح اب نہ چیپل برادز ہیں اور نہ ڈینس للی، نہ جیف تھامسن نہ ایلن بارڈر نہ شین وارن، نہ وا برادرز نہ گلین مکگراتھ اور نہ ہی پاکستان کی ٹیم میں حنیف محمد، اظہر عباس، مشتاق محمد، ماجد خان ہیں نہ ہی سرفراز نواز، عمران خان، عبد القادر اور انضمام الحق، نہ ہی سعید انور اور وسیم باری ہیں اور نہ ہی وسیم اکرم یا وقار یونس۔ لیکن اس کے باوجود بھی مقابلہ سخت ہوگا۔ پاکستانی ٹیم دوسری ٹیموں کی طرح اپنی سرزمین پر اچھا کھیل پیش کرسکتی ہے۔

2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان آنا بند کردیا تھا۔ تاہم حالات میں بہتری کے بعد غیر ملکی ٹیمیں اب دوبارہ پاکستان کے دورے کررہی ہیں اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے بحالی کے سفر میں آسٹریلوی ٹیم کا دورہ پاکستان ایک اہم سنگ میل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

M. Emad Mar 02, 2022 02:28am
NO East-Pakistan player in Pakistan National Cricket Team from 1947 to 1971.
Umair Jamil Ahmad Mar 02, 2022 09:01am
قمر صاحب کراچی ٹیسٹ 1994سیریز اور ہوبارٹ ٹیسٹ 1999-2000 سیریز بھی یادگار لمحات کا حصہ ہیں۔۔۔۔
shahzad khan Mar 02, 2022 12:26pm
it is much better .all news in detail and sophisticated. special entertainment news is very best.