پریانتھا کمارا قتل کیس: 89 ملزمان پر فرد جرم عائد

12 مارچ 2022
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر کو دسمبر میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو / وسیم اشرف بٹ
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر کو دسمبر میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو / وسیم اشرف بٹ

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے گزشتہ برس سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھاکمارا کے کیس میں 89 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج نتاشہ نسیم نے کوٹ لکھپت میں سماعت کی جہاں سئنیر اسپشل پراسکیوٹرعبدالرؤف وٹو سمیت 5 پراسکیوٹر ٹرائل میں پیروی پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ملزمان کی حمایت کرنے والے شخص کو سزا سنادی گئی

عدالت کو بتایا گیا کہ 89 ملزمان میں چالان کی کاپیاں تقسیم کی جا چکی ہیں اور پراسکیوشن کی جانب سے 40 گواہاں کو چالان کا حصہ بنایا گیا ہے۔

چالان میں واقعے کی ویڈیوز اور ڈیجیٹل شواہد بھی چالان میں شامل ہیں، ڈی این اے شواہد، چشم دید گواہان اور فرانزک شواہد کو بھی چالان کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پیرانتھا کمار کو بھیڑ سے بچانے کی ناکام کوشش کرنے والے فیکٹری منیجر کو بطور گواہ شامل کر لیا گیا ہے۔

چالان میں بتایا گیا ہے کہ فیکٹری سے 10 سی سی ٹی وی فوٹیجز فرانزک کے لیے بھیج دی گئی ہیں اور ملزمان کو موبائل فوٹیجز کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 55 سے زائد ملزمان کے موبائل برآمد کیے گئے اور استدعا کی گئی ہے کہ ملزمان کا جرم ناقابل معافی ہے، اس لیے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تمام 89 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی جبکہ ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: پولیس نے مزید 33 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا

ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد عدالت نے 14 مارچ کو پراسکیوشن کے 14 گواہوں کو طلب کر لیا اور سماعت ملتوی کردی۔

سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا قتل

یاد رہے کہ 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملے کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیے ان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ڈسٹرکٹ بار کا مشتبہ ملزمان کی نمائندگی سے انکار

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

افسوسناک واقعے پر ملک بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مذمت کی اور ملزمان کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’ہولناک حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا دن ہے، میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قانون کے دائرہ کار میں تمام ذمہ داران کو سزا دی جائے گی‘۔

پریانتھا کمارا کی میت 6 دسمبر کو ان کے ملک سری لنکا بھیجی گئی تھی۔

واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے امید ظاہر کی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔

واقعےمیں ملوث تقریباً 100 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور ان کے خلاف ٹرائل لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں جاری رہی۔

تبصرے (0) بند ہیں