شوکت صدیقی کے خلاف ایس جے سی کی سفارشات مبہم، یکطرفہ ہیں، وکیل کے دلائل

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2022
وکیل حامد خان نے دلیل دی کہ ایس جی سی کی سفارشات محض تاثرات پر مبنی ہیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
وکیل حامد خان نے دلیل دی کہ ایس جی سی کی سفارشات محض تاثرات پر مبنی ہیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

سینئر وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے خلاف اکتوبر 2018 کی سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جی سی) کی سفارشات مبہم، من مانی، ضد پر مبنی، یکطرفہ اور کسی مناسب عمل کے بغیر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 ججوں کے بینچ کے سامنے دلیل دی کہ یہ ثابت کرنے کے لیے واضح الزامات کا ہونا لازمی ہے کہ ایک جج نے ججوں کے لیے مقررہ ضابطہ اخلاق کی بعض دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔

بینچ نے ایس جے سی کی رائے اور 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف سابق جج شوکت صدیقی کی جانب سے اپیل کی سماعت کی تھی جس کے تحت انہیں اُسی سال جولائی میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر پر اعلیٰ عدالت کے جج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: 'غصہ آئی ایس آئی پر تھا، تضحیک عدلیہ کی کردی گئی'

اپنی سفارشات میں ایس جی سی نے فیصلہ دیا تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی نے نہ صرف ضابطہ اخلاق کی بعض دفعات کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے مرتبے کے حساب سے غیرمناسب رویہ بھی ظاہر کیا اور اس طرح انہوں نے اعلیٰ عدالت کے جج سے متوقع رویے کے روایتی تقاضوں کی خلاف ورزی کی۔

گزشتہ روز وکیل نے استدلال کیا تھا کہ ججوں کے لیے پورا ضابطہ اخلاق انتہائی مبہم ہے اور کسی بھی چیز کی واضح الفاظ میں تعریف نہیں کی گئی جس سے ججوں کو یہ واضح طور پر معلوم ہو سکے کہ جج کا غیر مناسب رویہ کیا ہے اور بدتمیزی سے کیا مراد ہے۔

حامد خان نے دلیل دی کہ ایس جی سی کی سفارشات جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف محض تاثرات پر مبنی ہیں۔

مزید پڑھیں: 'کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی'

اپنی رپورٹ میں ایس جی سی نے وضاحت کی تھی کہ ضابطہ اخلاق عقل اور کردار کی اعلیٰ ترین خصوصیات پر اصرار کرتا ہے اور رویے کے ان پہلوؤں کی بات کرتا ہے جو ایک جج کی پہچان ہوتے ہیں۔

سفارشات میں کہا گیا کہ ایسی خوبیوں یا رویے کی مکمل فہرست مرتب کرنا ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضابطہ اخلاق صرف رویے کے کچھ روایتی تقاضوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات پر غور ایس جی سی پر چھوڑتا ہے کہ کیا کسی جج کا مبینہ طرز عمل ان خصوصیات اور روایتی رویوں کے خلاف ہے جس کی جج سے توقع کی جاتی ہے یا نہیں۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمات کے علاوہ ملک کے قانون نے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی برطرفی کے بارے میں زیادہ فیصلے نہیں دیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟ جسٹس اعجازالاحسن

انہوں نے زور دیا کہ اس کیس کا عدلیہ کے مستقبل پر طویل مدتی اثر ہوگا لہذا تمام اہم نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر باریکی کے ساتھ بحث کی جانی چاہیے۔

تاہم عدالت نے وکیل سے کہا کہ وہ اپنی فارمولیشنز جمع کرائیں تاکہ بینچ سمجھ سکے کہ درخواست گزار کن مسائل کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 29 مارچ تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں