• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm

علاقائی ممالک کے اتفاق رائے کے بعد ہی افغانستان کو تسلیم کریں گے، پاکستان

شائع March 19, 2022
پاکستانی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو مقامی حکام کی رضامندی اور تعاون کے ساتھ کام کرنا چاہیے— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
پاکستانی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو مقامی حکام کی رضامندی اور تعاون کے ساتھ کام کرنا چاہیے— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

واشنگٹن: پاکستان کے اقوام متحدہ میں مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان علاقائی ممالک کے اتفاق رائے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرے گا۔

طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال جمعرات کو اس وقت دوبارہ سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم کیے بغیر طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے کے لیے ووٹ دیا، کونسل کے 15 ارکان میں سے چودہ نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ روس نے اس قرارداد میں حصہ نہیں لیا۔

مزید پڑھیں: ’افغانستان کا مستقبل پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات، مغربی امداد پر منحصر ہے‘

روس کے سفیر واسیلی اے نیبنزیا نے کہا کہ وہ قرارداد پر ووٹ پر اجتناب کرنے پر مجبور تھے کیونکہ اقوام متحدہ کی موجودگی کے لیے میزبان ملک کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

چینی سفیر ژانگ جون نے کہا کہ اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے ملک کے اقتدار کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید لچک کی ضرورت ہے۔

پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ معاملات میں مزید لچک پیدا کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک اسلام آباد نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اقوام متحدہ کا ووٹ اس معاملے پر پاکستان کے مؤقف کو متاثر کرے گا تو سفیر منیر اکرم نے کہا ہم یہ افغانستان کو اسی وقت تسلیم کریں گے جب خصوصاً علاقائی ممالک میں اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے قائم ہو۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ نہیں، دفتر خارجہ

افغانستان کے چھ قریبی پڑوسی اگلے ماہ چین میں ملاقات کر رہے ہیں اور یہ ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ایشوز میں سے ایک ہو گا، اجلاس میں چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شرکت کریں گے جبکہ طالبان کا وفد بھی شریک ہو گا۔

روس گوکہ افغانستان کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن اسے پچھلے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا اور وہ اس اجلاس میں بھی شرکت کر سکتا ہے البتہ اجلاس میں بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

سفیر منیر اکرم نے کہا کہ جمعرات کو منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد میں ایک خامی تھی کہ اس میں افغانستان میں ڈی فیکٹو حکومت کا کوئی حوالہ نہیں ہے حالانکہ اس میں متعلقہ حکام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت کا ذکر موجود ہے۔

بظاہر فرانس اور بھارت نے ڈی فیکٹو حکام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی مخالفت نہیں کی اور اسے مینڈیٹ سے باہر رکھنے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، افغانستان کیلئے سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے، امریکی رپورٹ

منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو مقامی حکام کی رضامندی اور تعاون کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ہماری نظر میں اس کی عدم موجودگی مینڈیٹ کی کمی کے مترادف ہے۔

تاہم پاکستانی سفیر نے تسلیم کیا کہ قرارداد نے افغانستان کو عطیات کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے غیرمشروط انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اگست 2021 سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے افغانستان کی مدد کے لیے 4.4 ارب ڈالر کی اپیل شروع کی ہوئی ہے جبکہ اس کے علاوہ ملک کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی 3.4 ارب ڈالر کی علیحدہ اپیل کر رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ابھی طالبان کی افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، ایران

پاکستانی سفیر نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں امریکا میں منجمد افغانستان کے اثاثوں کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 12 دسمبر 2024
کارٹون : 11 دسمبر 2024