پاکستان نے امریکا، چین اور روس کے ساتھ مل کر افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث نہ بنے۔

چاروں ممالک نے افغان حکومت پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے زور دے رہےہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) انفرادی طالبان اور اداروں کے عہدوں کا جائزہ لے۔

واشنگٹن میں جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہم افغان بشمول حکومت اور طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ دہشت گرد گروہ اور افراد کسی دوسرے ملک کی سلامتی کو خطرہ بنانے کے لیے افغان سرزمین استعمال نہ کریں۔

مزیدپڑھیں: افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ 'منتقل' ہوگیا ہے، امریکا

کالعدم تنظیم تحریک طالبان نے پاکستان میں 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول میں قتل عام سمیت متعدد حملوں کے دوران افغان سرزمین کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔

مشترکہ بیان میں نے کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور قومی مفاہمت کی اعلی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ کھل کر بات کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغانستان میں بزور طاقت کسی بھی حکومت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہیں کرتے۔

بیان میں کہا گیا کہ انفرادی طالبان کے عہدے کی حیثیت اور اداروں پر اقوام متحدہ 1988 کی پابندیوں پر نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ تشدد کے خاتمے کے عملی اقدامات اور طالبان کی جانب سے انٹرا افغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے مستقل کوششوں سے جائزے میں مثبت اثر پڑے گا۔

30 اپریل کو قطر میں ہونے والے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا جس میں افغان مذاکرات کی حمایت کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل ہے، امریکی جنرل

چاروں ممالک نے دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی اور سابقہ ملاقاتوں کے نتائج کا جائزہ لیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ افغان حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون کو جاری رکھے۔

انہوں نے افغانستان میں تنازع کے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ ملک میں تشدد کی سطح کو کم کریں اور طالبان موسم بہار میں حملوں سے گریز کریں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم افغانستان میں جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے کسی بھی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام حالات میں بین الاقوامی انسانی قانون بشمول عام شہریوں کے تحفظ سے متعلق اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔

چاروں ممالک کی جانب سے تمام افغان دھڑوں کو باور کرایا گیا کہ سفارتی عملہ اور املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے اور کابل میں غیر ملکی سفارتی اہلکاروں اور املاک پر کسی بھی حملے یا دھمکی کے مرتکب افراد کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: پاکستان، افغانستان کیلئے سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے، امریکی رپورٹ

اعلامیے میں ترکی کی جانب سے افغان فریقین کے سینئر رہنماؤں کی کانفرنس کی میزبانی کرنے کی تیاریوں کو تسلیم کیا گیا۔

چاروں ممالک نے مذاکرات کرنے والی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ایک جامع سیاسی تصفیہ اور جامع اور مستقل جنگ بندی کی طرف پیشرفت کریں۔

انہوں نے افغان امن اور مفاہمت کے عمل میں اقوام متحدہ کے کردار کا بھی خیرمقدم کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم ایک پائیدار اور انصاف پسند سیاسی قرارداد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک آزاد، خودمختار، متحد، پرامن، جمہوری، غیرجانبدار اور خود کفیل افغانستان کی تشکیل ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک سینئر امریکی قانون ساز نے کہا تھا کہ پاک-افغان سرحد کے ساتھ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ زونز بنانے کے لیے امریکی سینیٹ میں ایک دو جماعتی بل جلد پیش کیا جائے گا۔

سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اہم رکن سینیٹر وین ہولین کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ قانون سازی ری کنسٹرکشن اپرچونٹی زونز (آر او زیز) کے نام سے تجارتی حلقوں کو اجازت دے گی تا کہ مخصوص ڈیوٹی فری اشیا امریکا کو برآمد کی جاسکیں۔

سینیٹ کمیٹی میں افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی کی سماعت میں وین ہولین کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن حکومت میں موجود افراد پہلے ہی اس تجویز کے حامی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں