قندیل بلوچ کے بھائی کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2022
اپیل میں استدلال کیا گیا کہ مجرم کا اقبالی بیان محض تکنیکی اور مفروضوں کی بنیاد پر مسترد کر دیاگیا—فائل فوٹو: اے پی
اپیل میں استدلال کیا گیا کہ مجرم کا اقبالی بیان محض تکنیکی اور مفروضوں کی بنیاد پر مسترد کر دیاگیا—فائل فوٹو: اے پی

پنجاب کے پروسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کے قتل کیس کے واحد مجرم کی بریت کو چیلنج کرتے ہوئے ریاستی اپیل دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے 14 فروری کو قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 311 کے تحت ٹرائل کورٹ کی جانب سے 2019 میں سنائی گئی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل خرم خان کی جانب سے دائر ریاستی اپیل میں دلیل دی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ نے مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے قانون اور کیس کے حقائق کو اس کے حقیقی تناظر میں نہیں سمجھا۔

یہ بھی پڑھیں: قندیل بلوچ قتل کیس کا مرکزی ملزم عدالت سے بری

ان کا کہنا تھا کہ مقدمے میں مجرم کو بری کرنا انصاف کی ناکامی ہے۔

اپیل میں استدلال کیا گیا کہ سیکشن 164 سی آر پی سی کے تحت مجرم کا اقبالی بیان قائل کرنے کے لیے کافی تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے محض تکنیکی اور مفروضوں کی بنیاد پر اسے مسترد کر دیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے اعتراف جرم کے حوالے سے فیصلے میں جو مشاہدات دیے ہیں وہ ملکی قانون کے خلاف ہیں اور قانون کی نظر میں پائیدار نہیں۔

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سائنسی شواہد کے اس دور میں بینچ نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) کی ڈی این اے رپورٹس کو نظر انداز کیا جو ہر لحاظ سے استغاثہ کا مقدمہ قائم کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: قندیل بلوچ قتل کیس میں ریاست قانونی آپشنز کا جائزہ لے رہی ہے، ملیکہ بخاری

اپیل میں کہا گیا کہ قندیل بلوچ کی موت اس کے والدین کے گھر میں ہوئی اور قانون شہادت آرڈر 1984 کے سیکشن 122 کے مطابق جرم میں عدم شمولیت کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہے۔

اپیل میں استدلال کیا گیا کہ مقتول کی لاش کے قریب سے حاصل کیے گئے ڈی این اے کی رپورٹس نے مجرم کی جائے وقوع پر موجودگی اور اس کی بہن کے قتل میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ عدالت میں پیش کیے گئے شواہد اور کیس کے حالات کا جائزہ اسے غیرت کے نام پر قتل کا ایک واضح کیس بنا دیتا ہے جو سیکشن 331 پی پی سی (فساد فی الارض) کے دائرے میں آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماڈل قندیل بلوچ 'غیرت کے نام' پر قتل

اپیل میں مزید کہا گیا کہ اپیلٹ کورٹ نے پولی گراف ٹیسٹ پر غور نہیں کیا جو ملزم کے خلاف بہت مضبوط ثبوت تھا۔

استغاثہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے متوفی کے قانونی ورثا کی فہرست طلب کیے بغیر سمجھوتے کی بنیاد پر مجرم کو بری کر کے قانون کے خلاف کام کیا۔

استغاثہ کا کہنا تا کہ مقتول کا ایک نابالغ بیٹا ہے اور عدالت نے مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے کیس میں اس نابالغ بچے کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا۔

اپیل میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور مجرم کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزا بحال کی جائے۔

مزید پڑھیں: قندیل بلوچ نے سیکیورٹی مانگ لی

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سہیل ناصر نے عدالتی اعترافی بیان قلمبند کرتے ہوئے متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے کی جانے والی سنگین غیرقانونی کارروائی کے بعد مجرم وسیم کی اپیل منظور کی تھی۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایک بار اعتراف جرم کے ثبوت کو ضائع کر دیا جائے تو استغاثہ کے پاس ایسا کوئی مواد نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ غیرت کے نام پر قتل کا معاملہ تھا۔

جج نے کہا کہ میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ ملک کی ایک مشہور شخصیت نے بغیر کسی گناہ کے اپنی جان گنوائی لیکن صرف یہی حقیقت اپیل کنندہ کی سزا کو برقرار رکھنے کے لیے ان وجوہات کی بنا پر متعلقہ نہیں ہے جن کے مطابق عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ قانون کے تحت کرنا ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں