بھارت: مزدوروں کے حقوق، بہتر تنخواہ کے لیے 2 روزہ ملک گیر ہڑتال

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2022
آل انڈین ٹریڈ یونین کانگریس کا کہنا ہے احتجاج میں 20 کروڑ  سے زیادہ مزدوروں شریک ہوں گے—فوٹو:اے پی
آل انڈین ٹریڈ یونین کانگریس کا کہنا ہے احتجاج میں 20 کروڑ سے زیادہ مزدوروں شریک ہوں گے—فوٹو:اے پی

بھارت میں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اپنے غصے کا اظہار کرنے، صنعتی مزدوروں، ملازمین اور کسانوں کے حقوق کی حمایت میں لاکھوں مزدوروں نے دو روزہ ملک گیر ہڑتال شروع کردی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی درجن بھر مزدور یونینوں نے ملک گیر ہڑتال کا اہتمام کیا ہے، مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت غیر منظم شعبوں میں کارکنوں کو عالمی سماجی تحفظ فراہم کرے، اپنے فلیگ شپ ایمپلائمنٹ گارنٹی پروگرام کے تحت کم از کم اجرت میں اضافہ کرے اور سرکاری بینکوں کی نجکاری کے عمل کو روکے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی کسانوں کا احتجاج: کامیاب پُرامن تحریک کی مثال

ہڑتال کرنے والے مزدور حکومت سے ریاستی اثاثوں کی نجکاری کے منصوبوں کو ترک کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ چندسرکاری بینکوں کی نجکاری سے بینکنگ صنعت کی بحالی ہوگی اور اثاثوں کی نجکاری کا ماڈل اقتصادی ترقی تیز کرنے کے لیے رقم جمع کرنے میں مدد کرے گا۔

ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونینوں میں سے ایک آل انڈین ٹریڈ یونین کانگریس کا کہنا ہے کہ انہیں ہڑتال میں 20 کروڑ سے زیادہ مزدوروں کے شامل ہونے کی توقع ہے۔

احتجاج کرنے والی تنظیموں کی جانب سے نئی دہلی، ممبئی، کولکتہ اور دیگر بڑے شہروں میں مظاہروں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟

بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ ایک اہم ٹریڈ یونین بھارتیہ مزدور سنگھ نے اس ہڑتال میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس ملک گیر احتجاج کو سیاسی ہڑتال قرار دیا۔

مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے بھارت کی کئی ریاستوں میں بینکنگ، ٹرانسپورٹیشن، ریلوے اور بجلی جیسی بنیادی سروسز کے متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔

بھارت کامرکزی اسٹیٹ بینک آف انڈیا سمیت کئی سرکاری بینکوں کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے باعث بینکنگ سروسز متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد کی ہڑتال میں شرکت متوقع ہے۔

وبائی مرض کووڈ-19 کے پہلے دو برسوں کے دوران شدید متاثر رہنے کے بعد بھارت کی معیشت میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے لیکن دسمبر میں کئی لوگوں کی نوکریاں ختم ہونے کے باعث بے روزگاری کی شرح 8 فیصد تک پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت

یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو گزشتہ سال کسانوں کے زبردست احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا، کسانوں کے مظاہروں کے دوران ملک میں نافذ کیے گئے زراعت کے متنازع قوانین کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بھارتی حکومت کی جانب سے متنازع قوانین کو ضروری اصلاحات قرار دیتے ہوئے متعارف کرایا گیا تھا۔

ملک بھر میں ان قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو خوف تھا کہ ان قوانین سے ان کی آمدنی میں ڈرامائی طور پر کمی ہو گی۔

کسانوں کے ایک سال تک جاری رہنے والے مظاہروں نے نریندر مودی کو ریاست کے اہم انتخابات سے قبل غیر معمولی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا، جس کے بعد ان کی پارٹی نے ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں