سابق ڈی سی او لاہور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے بری

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2022
موجودہ کمشنر لاہور پر اس اجلاس میں شرکت کا الزام تھا جس میں آپریشن کی تیاری کی گئی تھی — فائل فوٹو: آئی این پی
موجودہ کمشنر لاہور پر اس اجلاس میں شرکت کا الزام تھا جس میں آپریشن کی تیاری کی گئی تھی — فائل فوٹو: آئی این پی

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2014 کے ماڈل ٹاؤن واقعے میں لاہور کے اس وقت کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کو بری کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں 2014 میں پیش آنے والے واقعے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: نئی جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے دوبارہ لارجر بینچ تشکیل

لاہور میں بطور کمشنر تعینات محمد عثمان نے عدالت میں کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 265-کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی جس میں پاکستان عوامی پارٹی (پی اے ٹی) کی ذیلی تنظیم ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے دائر کی گئی ایک نجی شکایت پر مقدمے کی کارروائی میں ان کی بریت کی درخواست کی گئی تھی۔

محمد عثمان پر ایک ملاقات میں شرکت کا الزام لگایا گیا تھا جہاں ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر رکھی گئی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے آپریشن شروع کرنے کی مبینہ سازش کی گئی۔

اپنے فیصلے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر تین کے پریزائیڈنگ جج اعجاز احمد بٹر نے مشاہدہ کیا کہ مبینہ سازش اور درخواست گزار کی حاضری کی حقیقت کو ٹرائل کورٹ نے 7 فروری 2017 کے اپنے حکم میں پہلے ہی مسترد کر دیا تھا اور اسے قبول نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ نجی شکایت کے مندرجات کے مطابق درخواست گزار کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: جے آئی ٹی کو نواز شریف سے جیل میں تفتیش کی اجازت

جج نے مزید کہا کہ میں نے نجی شکایت کے مندرجات کو دیکھا ہے، یہ کبھی بھی شکایت کنندہ کا دعویٰ نہیں تھا۔

جج نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار کی موجودگی کا الزام شکایت کنندہ نے نہ اپنی گواہی میں اور نہ شکایت میں لگایا ہے۔

جج نے اپنے فیصلے میں برقرار رکھا کہ میں نے 19 زخمیوں/عینی شاہدین کے بیانات بھی لیے ہیں، انہوں نے یہ الزام بھی نہیں لگایا کہ درخواست گزار جائے وقوع پر موجود تھا، ان کی طرف سے موجودہ اپنے بیانات میں درخواست گزار کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم/درخواست گزار کے نجی شکایت میں مذکور جرائم کی سزا پانے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ریکارڈ پر ایسا کوئی قابلِ جرم مواد نہیں ہے جو اس عدالت کو درخواست گزار کے مقدمے کو آگے بڑھانے کے قابل بنا سکے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس: سپریم کورٹ کا لاہور ہائیکورٹ کو 3 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم

ایک پراسیکیوٹر نے بریت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک استغاثہ کے باقی شواہد ریکارڈ نہیں کیے جاتے، درخواست گزار کو بری کرنے کا حکم انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرے گا۔

جج اعجاز احمد بٹر نے مشاہدہ کیا کہ یہ دلیل اس قابل نہیں کہ قائل کر سکے کیونکہ شکایت کنندہ کی طرف سے پیش اور ریکارڈ کیے گئے پورے سرسری ثبوت کو اس وقت کے ٹرائل جج نے 2017 میں مسترد کر دیا تھا۔

جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر درخواست منظور کر لی گئی ہے اور درخواست گزار کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد عثمان کو الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔

17 جون 2014 کو پاکستان عوامی پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر ’انسداد تجاوزات‘ آپریشن کے دوران احتجاج کرنے والے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی فائرنگ سے کم از کم 14 افراد ہلاک اور 100 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستان عوامی پارٹی نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی تقریباً تمام وفاقی اور صوبائی کابینہ کے علاوہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں ان پر ان 14 کارکنان کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: نئی جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں پر دلائل طلب

تاہم ٹرائل کورٹ نے اپنے 2017 کے حکم میں سیاسی شخصیات کی حد تک نجی شکایت کو خارج کر دیا تھا۔

ٹی ایل پی 40 کارکنان بری

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے منگل کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 40 کارکنوں کو 2021 میں پرتشدد مظاہروں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے مقدمے میں بری کر دیا۔

باغبان پورہ پولیس نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

عدالت نے ٹی ایل پی کارکنوں کو بری کر دیا کیونکہ استغاثہ ان کے خلاف الزامات قائم کرنے میں ناکام رہا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Apr 20, 2022 03:35pm
yeh ghair zarouriee muaamlaat khatam honay chahyeh…… Fasaadiee anasar keh khalaf Qanoun ko harkat mein aanaa hiee chahyeh...