اونٹوں اور گھوڑوں نے یادوں، قدموں کے نشانات کے ساتھ 'سی ویو' چھوڑ دیا

اپ ڈیٹ 23 مئ 2022
اونٹ مالک محمد عابد نے بتایا کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں اور اہل خانہ کی خوراک کے لیے قرضہ لینا پڑ رہا ہے —فوٹو فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار
اونٹ مالک محمد عابد نے بتایا کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں اور اہل خانہ کی خوراک کے لیے قرضہ لینا پڑ رہا ہے —فوٹو فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار

کلفٹن ساحل کے ساتھ ساتھ پیدل چل کر کھلے علاقے میں پہنچنے پر اِدھر اُدھر چھوٹے منتشر شیڈز، بڑی تعداد میں اونٹ اور چند گھوڑے پیروں میں لوہے کی لمبی رسی سے بندھے نظر آتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد اونٹ ریتلی مٹی میں اُگنے والی کانٹے دار جھاڑیاں چباتے اور کچھ اونٹ اپنی پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں۔

اونٹوں کے لیے صاف پانی رکھنے کے لیے پلاسٹک کی ری سائیکل شدہ کلر کرنے والی پیلے رنگ کی بالٹیاں یا صاف کے گئے نیلے رنگ کے کیمیکل کے ڈرم استعمال کے جاتے ہیں۔

آج کل اونٹوں کا زیادہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر وقت کھلے آسمان کے نیچے کھاتے پیتے گزرتا ہے، جن کی ان کے غریب مالکان چھوٹے ہوادار عاضی شیڈز سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ساحل سمندر پر اونٹ یا گھوڑا سواری کی اجازت نہیں ہے، جس کے باعث ان کی معمولی آمدنی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

اپنے 5 سالہ اونٹ کو جھاڑیاں چباتا دیکھ کر ثمر گل نے ڈان کو بتایا کہ کم از یہ مفت ہے، ورنہ مجھے ہر ہفتے اونٹ کے کھانے پر 4 ہزار روپے اورپانی پر 5 سو روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سی ویو پر غیرملکی وی لاگر سے مبینہ فراڈ پر 3 افراد گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ دراصل اونٹوں کے تمام مالکان پیسے جمع کر کے 5 ہزار گلین میٹھے پانی کا ٹینکر منگواتے ہیں جس کی قیمت 8 سے 10 ہزار روپے ہے۔

ثمر گل نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے احکامات کی وجہ سے ساحل سمندر پر کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم اپنے اونٹ کی سواری فراہم کرنے کے لیے شہر کی طرف گئے لیکن وہاں پر اونٹ سواری کی صورتحال ساحل سمندر جیسی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرح کی روایت کے طور پر اونٹ سواری کسی بھی ساحل سمندر پر پکنک کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے، 1980 میں گھڑ سواری بھی شروع ہوئی تاہم حکام کی جانب سے ساحل پر کام کرنے کا ٹھیکا دینے کے بعد سب کچھ رک گیا ہے۔

ثمر گل نے کہا کہ ڈیل فلپ کی یوٹیوب ویڈیو میں کچھ لڑکے وی لاگر کو سواری کروارہے تھے لیکن دو یا تین مکار لڑکوں کی غلطی کی سزا ہم سب کو دی جاری ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ کلفٹن ساحل پر اونٹ سواری کی اجازت ہے تاہم وہاں پر لوگوں کی کم تعداد ہوتی ہے جبکہ ہمارے پاس تقریباً 100 اونٹ ہیں، اس لیے کلفٹن ساحل ہمارے لیے بہت چھوٹا ہے۔ یہ ساحل دو دریا تک وسیع ہوگیا ہے تاہم ہمیں ڈولمین مال سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: گھڑ سواری کے کرتب

ایک اور اونٹ کے مالک محمد عابد نے بتایا کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے جانوروں اور اہل خانہ کی خوراک کے لیے قرضہ لینا پڑ رہا ہے، ہم قرضے میں ڈوبتے جارہے ہیں۔

محمد عابد کا کہنا تھا کہ لوگوں کا 40 ہزار سے زیادہ کا قرض ہمیں ادا کرنا ہے، کام نہ ہونے کی وجہ سے ہم صرف اسی صورت میں قرضہ ادا کرسکتے ہیں جب اپنے اونٹوں کو عیدالاضحٰی پر قربانی کے لیے فروخت کردیں، اونٹ کی کم از کم ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔

محمد ظفر نے بتایا کہ تین گھوڑوں کے مالکان نے غیرملکی سیاح کو بےوقوف بنا کر زیادہ قیمت وصول کر کے ہم سب کے روزگار کو تباہ اور سب کو برا بنا دیا ہے، اُن 3 لڑکوں کی غلطی کی سزا ہم سب کو دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بتائیں ساحل بغیر گھوڑے اور اونٹ سواری کے کیا ہے؟ لیکن اب سب ختم ہوچکا ہے میں اپنے گھوڑے زیادہ تر ضیاالدین ہسپتال کے پیچھے چھوٹے شیڈز میں رکھتا ہوں، اور تازہ کھانے اور جگالی کے لیے انہیں یہاں لاتا ہوں۔

کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹ کے ترجمان نے ڈان کو اس معاملے میں بتایا کہ ساحل سمندر پر اونٹوں اور گھڑسواری پر پابندی کی وجہ صرف غیرملکی سے زیادہ قیمت وصول کرنا نہیں تھیں، البتہ یہ ایک وجہ ضرور تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ گھوڑوں اور اونٹوں پر پابندی لگانے کی اہم وجہ یہ ہے کہ سی بی سی ساحل سمندر پر پارکوں کی تعمیر کررہا ہے جس سے جانوروں کے مالکان کو مسئلہ ہے، بعدازاں غیر ملکی سیاح کے واقعے کو مدنظر رکھ کر بھی یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ کسی اور ساحل پر کام کرنے کے لیے آزاد ہیں ہم نے انہیں صرف سی ویو ساحل سے ہٹایا ہے جو ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

سوال پوچھا گیا کہ کلفٹن میں متعدد پارکس ہیں جو خالی رہتے ہیں اور سی ویو کی طرح مقبول نہیں ہیں جبکہ اونٹ اور گھڑ سواری ساحل سمندر کی کشش میں اضافے کرکے لوگوں کو متوجہ کرتی ہے، کے جواب میں سی بی سی ترجمان نے کہا کہ اس موقع پر ان لوگوں اور ان کے جانوروں کے آنے پر 'عدم برداشت' ہے لیکن سی ویو پر ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد انہیں واپس لانے سے متعلق غور کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں