عثمان بزدار، اہلخانہ کے خلاف جعلسازی سے سرکاری اراضی اپنے نام منتقل کرنے کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 21 جون 2022
ایف آئی آر کے مطابق  زمین کی منتقلی  کے وقت ملزمان نابالغ تھے—فائل فوٹو:اے پی پی
ایف آئی آر کے مطابق زمین کی منتقلی کے وقت ملزمان نابالغ تھے—فائل فوٹو:اے پی پی

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان بزدار اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ڈیرہ غازی خان میں سرکاری زمین پر غیر قانونی اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کرنے اور سرکاری اراضی جعل سازی سے اپنے نام پر منتقل کرانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے بدعنوانی کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

شہری بشیر احمد چوہان کی شکایت پر 18 جون کو ڈی جی خان کے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کے دفتر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 409 (سرکاری ملازم، بینکر، مرچنٹ یا ایجنٹ کی جانب سے مجرمانہ عمل کے ذریعے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا جرم)، 420 (دھوکہ دہی کے تحت جائیداد کا حصول)، 468 (جعل سازی) اور 471 (جعلی دستاویز کو حقیقی کاغذات کے طور پر استعمال کرنا) اور بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ کی دفعہ 5/2/47 کے تحت 2 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آرز) میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے 28 جولائی 2018 اور 7 جون 2022 کو ڈی جی خان کے ڈپٹی کمشنر کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کے بھائیوں کی جانب سے جائیداد کی جعلی منتقلی کے بارے میں درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان بزدار کے خلاف شراب کیس پر پیپلز پارٹی کا اعتراض

بشیر احمد چوہان کی شکایات میں کہا گیا ہے کہ عثمان بزدار اور ان کے بھائیوں نے ڈی جی خان ضلع کے ریونیو افسران اور عہدیداروں کے ساتھ مل کر لینڈ کمیشن کے ذریعے 887 کنال اور 26 مرلہ سرکاری زمین اپنے نام پر جعلی طریقے سے منتقل کیا۔

ایف آئی آرز میں کہا گیا ہے کہ ان کے قبضے اور ملکیت میں پہلے سے ہی 12.5 ایکڑ سے زیادہ زمین موجود ہے، مارشل لا ریگولیشن کے مطابق 12.5 ایکڑ سے زیادہ جائیداد رکھنے والے کو الاٹمنٹ کا حق حاصل نہ ہونے کے باوجود پھر بھی انہیں سرکاری زمین الاٹ کی گئی۔

اس تمام عمل کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے جس کے ذریعے انہوں نے مبینہ طور پر زمین کی منتقلی کی، ایف آئی آرز میں کہا گیا ہے کہ جب الاٹمنٹ کی گئی تو ملزمان نابالغ تھے۔

ایف آئی آرز میں مزید کہا گیا کہ ڈی جی خان کے کمشنر نے الاٹمنٹ فائلیں ڈپٹی کمشنر کو انکوائری کے لیے بھیجی تھیں جنہوں نے جواب دیا کہ شکایات بے نامی ہونے کے باعث ان پر غور نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان بزدار کی بطور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب مراعات کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست

ایف آئی آرز میں الزام لگایا گیا ہے کہ الاٹمنٹس کی تصدیق ڈپٹی لینڈ کمشنر نے 1982 میں کی تھی اور 1986 میں ان کی منتقلی کی گئی تھی، ایف آئی آرز میں الزام لگاتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ ڈپٹی لینڈ کمشنر نے ریاستی زمین حاصل کر کے اس سے مستفید ہونے والوں کی غیر قانونی حمایت کی اور فیور دے کر دھوکہ دہی سے اس جعلی الاٹمنٹ کو تحفظ فراہم کیا۔

ایف آئی آرز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن کے نام پر زمین الاٹ کی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ریونیو افسران اور عہدیداروں کے خلاف مجرمانہ عمل پر 'سخت کارروائی' کی جائے۔

ایف آئی آرز میں زمین کی الاٹمنٹ کی منسوخی کے کیس کی بھی سفارش کی گئی ہے جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ریاست کی زمین غیر قانونی اور قواعد و ضوابط کے بر خلاف غلط طریقے سے منتقل کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں