سینیٹ اجلاس: ‘ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر حکومت، وزیردفاع ایوان کو اعتماد میں لیں’

اپ ڈیٹ 20 جون 2022
سینیٹ اجلاس کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین پر پولیس تشدد کو قابل مذمت قرار دیا گیا—فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ اجلاس کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین پر پولیس تشدد کو قابل مذمت قرار دیا گیا—فائل فوٹو: اے پی پی

سینیٹ میں حکومتی اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے متعدد اراکین نے وزیردفاع سے مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔

سینیٹ اجلاس کے دوران حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا ہے، حکومت اور وزیر دفاع کو چاہیےکہ ایوان میں آکر اعتماد میں لیں کہ ٹی ٹی پی سے کیا مذاکرات ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت سے مذاکرات میں پیش رفت، ٹی ٹی پی کا غیرمعینہ مدت کیلئے جنگ بندی کا اعلان

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی فاٹا کی موجودہ حیثیت ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور یہ فیصلہ بند دروازوں کے پیچھے نہیں کیا جا سکتا، جرگہ بھیجنا اچھی بات ہو گی لیکن جرگہ پارلیمان کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

رضا ربانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ایک دھڑا نے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھادی ہیں، ٹی ٹی پی سے معاہدے کی کیا شرائط ہیں، جب تک معاملہ پارلیمنٹ میں نہیں آئے گا، اس کی قبولیت نہیں ہو گی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ آج وزیرستان میں 4 نوجوان ٹارگٹ کلنگ میں شہید کر دیے گیے، یہ نوجوان وزیر ستان میں تعلیم، صحت اور امن کے لیے کام کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان نوجوانوں سے حکومت نے معاہدہ کیا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ روکی جائے گی لیکن آج وہ خود ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گڈ طالبان نے اعلان کیا کہ ہم نے ان کو قتل کیا، فو ج، ایف سی کس کی ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں برسوں سے جاری تشدد اور تنازعات کو معاہدے کے ذریعے ختم کرنے کے لیے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جاری مذاکرات میں قبائلی جرگے نے بھی شرکت کیا تھا۔

بعد ازاں مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کے نیتجے میں ٹی ٹی پی نے ’غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی‘ کا اعلان کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان کی جانب سے یہ اعلان وفاقی وزیر، خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں اور قبائلی عمائدین سمیت 50 رکنی پاکستانی قبائلی جرگے کے وفد سے امن مذاکرات کے بعد سامنے آیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران بات چیت میں کافی پیش رفت ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی قیادت نے غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق

ان کا کہنا تھا کہ کہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے آنے والے دنوں میں بات چیت جاری رہے گی۔

نیب ترامیم پر اپوزیشن کا احتجاج

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف سینیٹ میں بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔

قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے کہا کہ آج سیاہ دن ہے ہم نیب ترامیم کےخلاف کالی پٹیاں پہن کر اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، آج این آر او ٹو دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ این آر او ون میں بڑی جماعتوں نے بیٹھ کر مک مکا کیا، اسی ایوان میں انہوں نے نیب قانون کا قتل کیا ہے، ان کے ہاتھ رنگے ہیں، انہوں نے اپنے این آر او کی فیس لے لی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت عارف علوی کا احتساب ترمیمی بل پر بھی دستخط کرنے سے انکار

اس موقع پر قائد ایوان اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ احتساب قانون میں 85 فیصد ترامیم وہ ہیں جو پی ٹی آئی حکومت نے دو آرڈیننس کے ذریعے کی تھیں اور نیب ترامیم کے حوالے سے ایک،ایک شک پر اپوزیشن کو مطمئن کریں گے۔

اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ نیب کے یہ آرڈیننسز پی ٹی آیی نے ایوان میں پیش نہیں کیے تھے، نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دو بڑی جماعتوں کی غلطی تھی، انہیں یہ کالا قانون تبدیل کرنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی حکومت میں سیاسی مخالفین کے خلاف نیب کا سہارا لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ضمانت کے قانون کو ہم نے تبدیل کیا، دنیا میں کہیں اتنا ڈریکونین قانون نہیں ہے۔

قائد ایوان نے کہا کہ شہزاد اکبر، عثمان بزدار، فرح گوگی کے لیے این ار او دیا گیا۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے احتجاج پر تشدد کی مذمت

سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ کراچی میں لاپتہ افراد کے حوالے سے احتجاج کرنے والی بلوچ خواتین پر پولیس کا تشدد قابل مذمت ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر مظاہرہ

انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ حقوق حاصل نہیں جو باقی صوبوں کے لوگوں کو ہیں، خواتین اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی تھیں لیکن انہیں گھسیٹ کر موبائلوں میں ڈالا گیا۔

سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ بتایا جائے کہ کیا آئین پرامن احتجاج کا حق نہیں دیتا۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ خواتین پر تشدد کا معاملہ کمیٹی کو بھیجا جائے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے سندھ میں بلوچ خواتین پر تشدد کا معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹ نے اس حوالے سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پولیس نے کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کرنے والی خواتین سمیت 28 افراد کو حراست میں لے لیا تھا اور تشدد بھی کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس نے پیر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 19 مرد اور 9 خواتین کو حراست میں لیا جب کہ پولیس افسر نے اس بات سے انکار کیا کہ مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بلوچ طلبا کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 28 افراد زیر حراست

انہوں نے مزید کہا تھا کہ خواتین پولیس اہلکاروں نے خواتین مظاہرین کو حراست میں لیا جبکہ احتجاج کے منتظمین نے پولیس پر خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس لاپتا طالب علموں کے لواحقین کی محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں سے ملاقات کرانے کے اپنے وعدے سے مکر گئی، اس لیے انہوں نے دوبارہ سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دھرنا دیا جہاں پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں