عراقی وزیراعظم کا سعودی عرب اور ایران کا دورہ، علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال

27 جون 2022
ایران کے صدر نے عراقی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کو خوش آئند قرار دیا — فوٹو: اے ایف پی
ایران کے صدر نے عراقی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کو خوش آئند قرار دیا — فوٹو: اے ایف پی

عراقی وزیراعظم نے سعودی عرب اور ایران کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں مشرق وسطیٰ کے دو بڑے ممالک کے درمیان ثالثی کی بغداد کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے جدہ میں ملاقات کے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے تہران میں ملاقات کی اور دونوں علاقائی حریفوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016 سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔

ایران کے صدر نے عراقی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ثالثی کی کوشش کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ’ہم نے خطے کے مسائل کے حل کے لیے علاقائی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایران اور عراق کا ماننا ہے کہ خطے میں امن و سکون کا انحصار تمام علاقائی رہنماؤں کے کردار پر ہے۔‘

ابراہیم رئیسی نے یمن میں اپریل میں ہونے والی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جہاں تہران اور ریاض سات سال سے مخالف فریقین کی حمایت کرتے ہیں۔

تاہم انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات پر سختی سے تنقید کی اور اشارہ دیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا آئندہ دورہ ریاض، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہتر تعلقات پیدا کرسکتا ہے۔

ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور خطے میں اجنبیوں کی موجودگی سے خطے کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ان میں اضافہ ہوگا۔

یاد رہے کہ امریکا کی ثالثی میں اسرائیل نے 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش سے ابراہیمی معاہدے کیے تھے اور سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

مصطفیٰ کاظمی نے کہا کہ انہوں نے اور ابراہیم رئیسی نے علاقائی امن کو برقرار رکھنے اور غذائی عدم تحفظ سے لڑنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

خیال رہے کہ ایران اور سعودی عرب ایک عرصے سے علاقائی حریف سمجھے جاتے ہیں اور خطے کے متعدد تنازعات والے علاقوں میں حریف فریقین کی حمایت کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں