امریکی صدر جو بائیڈن نے 18 ماہ پہلے عہدہ سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ امریکا عالمی سطح پر ایک بار پھر مکمل آب و تاب کے ساتھ واپس آگیا ہے لیکن عملی طور پر اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔

امریکا 2 عشروں کے دوران کئی ناکام خارجہ پالیسیوں کے بعد اب تک تھکا ہارا اور بے سمت ملک بنا ہوا ہے۔ یوکرین جنگ کے لیے 50 ارب ڈالر کی منظوری کے بعد امریکا معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کو اندرونِ ملک وسط مدتی انتخابات اور کانگریس کے 2 ایوانوں میں سے کسی ایک میں برتری کھو جانے کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ وسط مدتی انتخابات میں شکست کے ڈر سے صدر بائیڈن نے ایران کے ساتھ امن کی پالیسی کو بدلتے ہوئے اسرائیلی مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کرلیا ہے۔

دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں روس کا کردار بھی یوکرین جنگ کی وجہ سے محدود بلکہ ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ روس نے ناصرف شام سے فوجی دستے نکالنے کے لیے کوشش کررہا ہے بلکہ لیبیا میں بھی کارروائیاں روکنے پر مجبور ہوگیا ہے، اس طرح مشرق وسطیٰ میں علاقائی طاقت کا جو ایک تاثر تھا وہ عملی طور پر ختم ہوچکا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ایک اور اہم کھلاڑی ترکی بھی اندرونی معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے، صدر طیب اردوان کو اگلے سال سخت انتخابی دنگل کا سامنا ہے، اور اگر صدر اردوان کو انتخابات جیتنے کے لیے سعودی عرب، اسرائیل اور عرب امارات کے ساتھ مخاصمت میں کمی بھی کرنا پڑتی ہے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

امریکی صدر بائیڈن عملی طور پر اب تک امریکا کی پرانی آب و تاب واپس نہیں لاسکے ہیں— تصویر: رائٹرز
امریکی صدر بائیڈن عملی طور پر اب تک امریکا کی پرانی آب و تاب واپس نہیں لاسکے ہیں— تصویر: رائٹرز

اب صدر اردوان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ ترک عوام کے سامنے یہ ثابت کرسکیں کہ ترکی کی اب کسی عرب ملک کے ساتھ کوئی مخاصمت نہیں ہے اور وہ ملک میں سرمایہ کاری لانے کے قابل ہیں۔

ان حالات میں امریکی صدر جو بائیڈن آئندہ ماہ کے وسط سے مشرق وسطیٰ کے دورے پر نکل رہے ہیں اور اس سے پہلے ایشیائی ملکوں کے دورے میں جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ صدر بائیڈن کے دورے سے پہلے آنے والی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ اس دورے کے دوران اسرائیل اور عرب ملکوں کا نیا سیکیورٹی اتحاد جنم لے رہا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق مصر کے معروف شہر شرم الشیخ میں امریکا کی قیادت میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے سیکیورٹی سربراہوں کی خفیہ ملاقات ہوئی جس میں ایرانی میزائل اور ڈرون خطرات سے نمٹنے پر بات کی گئی۔ اس ملاقات میں امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل میک کنزی، سعودی آرمڈ فورسز کے سربراہ، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف سمیت قطر، مصر، عرب امارات، بحرین اور اردن کے سیکیورٹی حکام شریک ہوئے۔

ملاقات کا وقت اس رپورٹ میں نہیں دیا گیا لیکن یہ بتایا گیا کہ اس ملاقات میں ایرانی میزائل اور ڈرون حملوں سے فوری آگاہ کرنے کے لیے نوٹیفکیشن پر اتفاق ہوا۔ یہ نوٹیفکیشن فون اور کمپیوٹر کے ذریعے ہوگا اور امریکا اس کے لیے اپنے ڈیٹا شیئرنگ نظام کو ابھی بروئے کار نہیں لائے گا، تاہم اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں مکینزم پر فیصلہ ہوگا۔

اس سے پہلے اسرائیلی رپورٹروں نے مختلف میڈیا ہاؤسز کے ذریعے یہ خبریں دیں کہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایئر ڈیفنس اتحاد پر کام ہو رہا ہے اور بائیڈن کے دورے کے دوران اس کا اعلان متوقع ہے۔

سعودی عرب کی آرامکو تنصیبات اس سے پہلے میزائل اور ڈرون حملوں کی زد میں آچکی ہیں اور یہ فضائی حملے جنوب کی جانب سے نہیں بلکہ شمال کی جانب سے ہوئے تھے، جس کا مطلب ہے کہ ان حملوں میں یمن کے حوثی باغیوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ عرب امارات کے ٹینکر بھی حملوں کی زد میں آچکے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں نے ایران کی طرف براہِ راست انگلی اٹھانے سے گریز کیا تھا۔ امریکا بھی ان حملوں کا درست اندازہ نہیں لگا پایا کہ یہ حملے کس نے اور کس طرف سے کیے تھے۔

بائیڈن کے دورے سے پہلے سعودی ولی عہد نے اردن، مصر اور ترکی کے دورے کیے۔ یہ دورے صدر بائیڈن کو یہ دکھانے کے لیے تھے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود سعودی عرب اچھوت ریاست نہیں بنا جس کا بائیڈن زور و شور سے اعلان کرتے رہے۔ بائیڈن کے دورے سے پہلے سعودی عرب نے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات درست کرلیے ہیں اور بائیڈن جب ولی عہد کے ساتھ ملاقات کریں گے تو انہیں یہ باور بھی کرایا جائے گا۔

بائیڈن کے دورے سے قبل سعودی ولی عہد نے ترکی کا دورہ کیا ہے—تصویر: اے ایف پی
بائیڈن کے دورے سے قبل سعودی ولی عہد نے ترکی کا دورہ کیا ہے—تصویر: اے ایف پی

سعودی ولی عہد کے ترکی کے دورے سے پہلے ترک عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کا قتل کیس بند کردیا تھا اور محمد بن سلمان کے دورے سے پہلے ترک مصنوعات پر پابندی بھی اٹھالی گئی۔ مشترکہ اعلامیے میں تجارتی، معاشی اور دفاعی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعلان کیا گیا۔ مصر میں سعودی ولی عہد نے 7.7 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

مصر کبھی عرب دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا اور امریکی صدور مشرق وسطیٰ کے دورے میں پہلے اسٹاپ کے طور پر مصر کو رکھتے تھے لیکن اب قیادت کے فقدان اور معاشی حالات کی وجہ سے مصر یہ مقام کھو چکا ہے۔

یوکرین جنگ کے نتیجے میں غذائی اشیا اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مصر کا بجٹ خسارہ بڑھ گیا ہے۔ آج اسی مصر میں غذائی قلت کا خدشہ ہے جس نے 2013ء سے 2020ء کے عرصے میں یورپی یونین سے 12 ارب 50 کروڑ ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ اس عرصے میں مصر فرانس کے ہتھیاروں کا دوسرا بڑا خریدار رہا اور فرانس کے ساتھ 24 رافیل طیاروں، فریگیٹ اور میزائلوں کے معاہدے کیے۔

پچھلے سال مصر کے صدر نے مزید 30 رافیل طیاروں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے اور یہ تمام خریداری فرانسیسی حکومت اور بینکوں کی طرف سے قرض کی بنیاد پر کی گئی۔

مصر نے 3 ارب ڈالرز کے ٹائیفون طیاروں کی مد میں اٹلی کو ان دنوں میں 50 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے اور عوام بھوک سے تنگ ہیں۔

مصر عرب دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا لیکن اب اپنا مقام کھو چکا ہے— تصویر: رائٹرز
مصر عرب دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا لیکن اب اپنا مقام کھو چکا ہے— تصویر: رائٹرز

دیگر عرب ملکوں میں شام، یمن اور لیبیا جنگ سے تباہ حال ہیں اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے بھی محروم ہیں۔ اردن بھی معاشی طور پر گھٹنوں پر آچکا ہے۔ ان حالات میں سعودی ولی عہد نے اگلے بادشاہ کے طور پر پوزیشن مضبوط کرلی ہے اور وہ عرب دنیا کے لیڈر کے طور پر خود کو منوانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ صدر بائیڈن کا دورہ جدہ اس پر مہر ثبت کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

یہ الگ بات ہے کہ ان حالات میں عربوں کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو اسرائیل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوسکے لیکن محمد بن سلمان تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے وائٹ ہاؤس کام شروع کرچکا ہے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ بائیڈن خود اس عمل کو بتدریج آگے بڑھانے کے حامی ہیں۔ روڈ میپ بنانے اور اس پر عمل کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔

حال ہی میں مصر کی طرف سے بحر احمر میں 2 جزیروں تیران اور صنافیر کی سعودی عرب کو حوالگی کا معاہدہ طے پایا جس میں سیکیورٹی کے حوالے سے اسرائیل بھی ایک فریق تھا اور یہ معاہدہ امریکی نگرانی میں تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوسکا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں سعودی عرب اسرائیلی پروازوں کو اپنی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا اور اس کا اعلان بھی بائیڈن کے دورے کے دوران متوقع ہے۔

محمد بن سلمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں— تصویر:اے پی
محمد بن سلمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں— تصویر:اے پی

اسرائیل کے وزیرِ خارجہ یائر لاپید کہہ چکے ہیں کہ بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی امید ہے۔ اس سے پہلے امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے مشرق قریب باربرا لیف کانگریس میں سماعت کے دوران کہہ چکی ہیں کہ بائیڈن کے دورے کے دوران مزید عرب ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کے اقدامات کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے میں کئی دلچسپ واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی پر آمادہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بات صدر بائیڈن خود ہی بتائیں تو اچھا ہوگا وہ ان کی جگہ نہیں لے سکتیں۔

اسی ماہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک قانونی بل متعارف کرایا گیا ہے جو تعلقات معمول پر لانے کا ایک اور اشارہ ہے۔ اس بل کو ڈیفنڈ ایکٹ 2022ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت ایران کی طرف سے فضائی حملوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اسرائیل اور کئی عرب ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے پینٹاگون کو ایئر اینڈ میزائل ڈیفنس سسٹم بنانے کی حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ عرب ممالک میں جن کے نام دیے گئے ان میں اردن، مصر اور عراق شامل ہیں جبکہ خلیج تعاون تنظیم کے رکن ممالک بھی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہوں گے۔ خلیج تعاون تنطیم میں سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور عمان بھی شامل ہیں۔

ان شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر ہیں اور اسرائیل-عرب مشترکہ دفاع کا معاہدہ خطے میں سیکیورٹی اور اسٹریٹجک معاملات کو نیا رخ دے سکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

اخترحسین Jun 28, 2022 10:29am
حیرت ہے کیا سعودی عرب اور اسرائیل میں تعلقات نہیں ہیں کیا؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ بڑے برادرانہ تعلقات ہیں گزشتہ ستر سال سے واہ بھئی