سندھ میں مخنث افراد کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ مختص

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2022
مکیش کمار چاولہ نے  کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہو گا جہاں  خواجہ سراؤں کو نوکریاں فراہم کی جائیں گی— فائل فوٹو: آن لائن
مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہو گا جہاں خواجہ سراؤں کو نوکریاں فراہم کی جائیں گی— فائل فوٹو: آن لائن

سندھ اسمبلی نے اہم تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے صوبے کے تمام سرکاری محکموں میں خواجہ سراؤں کے لیے 0.5 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی امور سندھ کے وزیر مکیش کمار چاؤلہ نے 'سندھ سول سرونٹ (ترمیمی) بل 2021' ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سندھ پہلا صوبہ ہو گا جہاں اس طرح سے خواجہ سراؤں کو سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔

صوبائی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مکیش کمار چاؤلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ مرحلہ اور اقدام صرف شروعات ہے جس کے تحت مخنث افراد کے لیے صرف 0.5 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ کوٹہ نہ صرف سرکاری محکموں میں بلکہ نجی اداروں میں بھی نافذ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود سندھ اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی بل منظور

بل کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اس میں لکھا گیا ہے کہ ’خواجہ سرا شہری ہمارے معاشرے کا پسا ہوا، نظر انداز اور کمزور طبقہ ہے، پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی تاریخ پرتشدد واقعات، سماجی و سیاسی معاملات میں عدم شرکت، معاشی طور پر عدم مساوات، عدم تحفظ اور جذباتی بے حسی سے بھری پڑی ہے‘۔

بل میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان تمام مذکورہ بالا وجوہات کے باعث بل کا مقصد ایسے کمزور اور پسے ہوئے شہریوں کو بااختیار بنانا اور انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت سندھ نے خواجہ سراؤں کے لیے 0.5 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس لیے سندھ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ترمیم کرنا مفید و موزوں ہے۔

صوبائی وزیر پارلیمانی امور نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اقلیتوں اور خصوصی افراد کے لیےپہلے سے ہی 5 فیصد کوٹہ مقرر کر رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ اسمبلی نے 'رات گئے' بجٹ منظور کرلیا

2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمارکے مطابق ملک میں کل 10 ہزار 418 خواجہ سرا موجود ہیں۔

مردم شماری کے مطابق 2 ہزار 527 یا مجموعی تعداد کے 24 فیصد حصے کے ساتھ خواجہ سراؤں کی دوسری سب سے زیادہ آبادی سندھ میں آباد ہے جب کہ پنجاب میں ملک کی 64.4 فیصد ٹرانس جینڈر آبادی یا 6 ہزار 709 افراد رہائش پذیر ہیں اور اس لحاظ سے پنجاب رجسٹرڈ مخنث آبادی کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

دوسری جانب، انسانی حقوق گروپ چیریٹی ٹرانس ایکشن پاکستان کے تخمینے کے مطابق ملک بھر میں کم از کم 5 لاکھ مخنث شہری موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Kami Jul 05, 2022 12:23pm
We welcomes the decision of the Government of Sindh for the inclusion of the marginalized transgender community in getting respectable jobs in a different department that comes under the auspice of the Sindh Government. In reference to the above-mentioned amendment bill; it is requested to please clarify on and elaborate the following: Pakistan is a signatory to different United Nations and other international bodies’ treaties and convents. The 0.5 quotas in different jobs across the Government of Sindh is very low and need to be increased as par with quotas approved by other provisional governments across Pakistan. Due to the stigma and discrimination faced by the marginalized transgender community on daily basis from mainstream society, they are left behind in acquiring decant education which leads to not meeting the minimum education criteria mentioned in the different government of Sindh job advertisements; it is suggested that for trans community education requirement will be relaxed as exceptional cases. As per the established policies and norms of international bodies; gender identity is totally different from sexuality and cannot be assessed medically. The amendment bill categorically mentioned medical examination and getting a certificate from the Standing Medical Board; this is a clear violation of basic human rights as per the constitution of Pakistan and the Universal Declaration of Human Rights (UDHR) as Pakistan is also a signatory to it. The medical examination will have adverse effects on the marginalized trans community and make them more vulnerable.